حقوقِ انسانی

چین سنکیانگ میں زیادتی، استحصال کو ترقی کی 'روشن مثال' سمجھتا ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

اقلیتی ایغور مسلمان، 30 دسمبر کو استنبول میں چین کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے، کتبے اٹھائے ہوئے اپنے ان رشتہ داروں کے بارے میں خبر کا مطالبہ کر رہے ہیں جو لاپتہ ہیں یا جنہیں بیجنگ میں قید کیا گیا ہے۔ [بولنٹ کِلک/ اے ایف پی]

اقلیتی ایغور مسلمان، 30 دسمبر کو استنبول میں چین کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے، کتبے اٹھائے ہوئے اپنے ان رشتہ داروں کے بارے میں خبر کا مطالبہ کر رہے ہیں جو لاپتہ ہیں یا جنہیں بیجنگ میں قید کیا گیا ہے۔ [بولنٹ کِلک/ اے ایف پی]

بیجنگ -- وزیرِ خارجہ وانگ یی نے پیر (22 فروری) کو کہا کہ سنکیانگ اور تبت میں نسلی اقلیتوں کے ساتھ چین کا سلوک، ملک کی طرف سے انسانی حقوق میں کی جانے والی پیش رفت کی "روشن مثال" ہے۔

ایک ملین سے زیادہ ایغور اور ترک زبانیں بولنے والے دیگر مسلمان، جن میں قازق اور کرغیز النسل بھی شامل ہیں، کو سنکیانگ میں کیمپوں میں قید رکھا گیا ہے جہاں "بھیانک اور منظم استحصال" ہوتا ہے۔

ابتدا میں ان کیمپوں کی موجودگی سے انکار کرنے کے بعد، بیجنگ اب "ووکیشنل تربیتی مراکز" کے طور پر ان کا دفاع کر رہا ہے جن کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اور ملازمت کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہے۔

اگست میں شائع ہونے والی بزفیڈ نیوز کی تفتیش میں سنکیانگ کے علاقے میں ایسے کئی سو احاطوں کو دریافت کیا گیا تھا جو جیلوں اور حراستی مراکز کی علامات رکھتے تھے اور ان میں سے بہت سوں کو گزشتہ تین سالوں کے دوران بنایا گیا ہے۔

چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی، 22 فروری کو بیجنگ میں چین اور امریکی تعلقات پر ہونے والے لانٹینگ فورم کی افتتاحی تقریب کے بعد ایک مہمان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی، 22 فروری کو بیجنگ میں چین اور امریکی تعلقات پر ہونے والے لانٹینگ فورم کی افتتاحی تقریب کے بعد ایک مہمان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

دسمبر کے آخیر میں شائع ہونے والی مزید تفتیش سے آشکار ہوا کہ کیمونسٹ ریاست نے سنکیانگ میں 100 سے زیادہ حراستی مراکز کی تعمیر کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔

تازہ ترین غم و غصہ میں، سابقہ قیدیوں اور محفاظوں نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ ان کیمپوں میں مسلمان خواتین کے ساتھ منظم زیادتی، تشدد اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔

عینی شاہدین اور سابقہ قیدیوں نے بجلی کے جھٹکے لگانے سے تشدد، جس میں گارڈز کی طرف سے بجلی کے ڈنڈوں سے زیادتی، بھوکا رکھنا، مارپیٹ، اجتماعی زیادتی اور زبردستی نس بندی کرنا شامل ہیں، کو بیان کیا۔

جنوری میں، چین کے سفارت کاروں نے سنکیانگ کی آبادی میں حالیہ اور ڈرامائی کمی کا دفاع کرتے ہوئے اسے خواتین کے حقوق کی کامیابی قرار دیا اور حکومت کی طرف سے زبردستی نس بندی کو استعمال کیے جانے کے بارے میں بااعتماد اور آزادانہ تحقیق کو مسترد کر دیا۔

امریکہ میں چین کے سفارت خانے نے، سنکیانگ ڈویلپمنٹ ریسرچ سینٹر کی طرف سے 2018 سے سنکیانگ کی آبادی میں تبدیلی کے بارے میں ایک غیر اشاعت شدہ رپورٹ کے حوالے سے، ٹوئٹ کیا کہ "سنکیانگ میں ایغور خواتین کے ذہنوں کو آزاد کر دیا گیا اور صنفی برابری اور تولیدی صحت کی تشہیر کی گئی جس سے اب وہ بچے پیدا کرنے کی مشینیں نہیں رہی ہیں

'روشن مثالیں'

اگرچہ دوسرے ممالک، چین کی طرف سے مسلمانوں کے استحصال پر اقدامات کرنے پر غور کر رہے ہیں، چینی حکومت نے اپنے اقدامات کے دفاع میں اضافہ کر دیا ہے۔

وانگ نے بیجنگ میں امریکہ اور چین کے تعلقات کے بارے میں ایک فورم میں کہا کہ "وہ علاقے جہاں نسلی اقلیتیں رہتی ہیں جیسے کہ سنکیانگ اور تبت، انسانی حقوق کے سلسلے میں چین کی پیش رفت کی روشن مثالوں کے طور پر سامنے آئے ہیں"۔

وانگ نے اپنی یہ تقریر اس وقت کی جب کئی ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے، کے سیاست دان چین کی طرف سے سنکیانگ میں اقلیتوں کو قید کرنے کی مذمت کر رہے تھے اور جب وہ چند گھنٹے بعد، ویڈیو لنک کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے والے تھے۔

وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ وانگ کونسل سے اپنے خطاب میں "انسانی حقوق کی حفاظت کے سلسلے میں چین کے فلسفے، طریقہ کار اور تجربے کو سانجھا کریں گے"۔

مگر امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ سنکیانگ میں چین کے اقدمات نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں اور کینیڈا بھی ایسے ہی اعلامیے کو جاری کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

انسانی حقوق کے گروہوں اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ چین کے زیرِ حکومت تبتیوں کو بھی اپنے مذہب اور ثقافت پر سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے -- جس میں خانقاہوں کو مسمار کرنا بھی شامل ہے -- جس کے نتیجہ میں حالیہ سالوں میں تبیتیوں کی طرف سے خودسوزی کے بہت سے مظاہروں نے جنم لیا۔

تبت میں اخباری نمائندوں کو آزادانہ طور پر خبریں دینے سے روک دیا گیا ہے جبکہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ ماضی کے پسماندہ علاقے میں ترقی لے آیا ہے۔

وانگ نے پیر کو کہا کہ چین انسانی حقوق کی حفاظت کا "ہمیشہ سے عہد" رکھتا ہے اور انہوں نے علاقے میں، فی کس جی ڈی پی اور متوقع عمروں میں اضافے کو انسانی حقوق کی حفاظت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

وانگ نے کہا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ معاش اور ترقی کے حقوق، انتہائی اہمیت رکھنے والے بنیادی انسانی حقوق ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500