چین کی جانب سے اپنی مسلمان اقلیتوں کے خلاف مہم میں تیز تر توسیع کے مزید ثبوت میں، بزفیڈ کی ایک خبری تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کمیونسٹ ریاست نے سنکیانگ میں 100 سے زائد نئے حراستی مراکز تعمیر کیے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ، جو دسمبر کے آخر میں شائع کی گئی تھی، آئی بیم سینٹر فار دی فیوچر آف جرنلزم، پلٹزر سینٹر اور اوپن ٹیکنالوجی فنڈ کی زیرِ کفالت رپورٹوں کے ایک سلسلے کا چوتھا حصہ ہے۔
بزفیڈ نیوز نے اپنی تحقیقات میں سرکاری ریکارڈز، انٹرویوز اور سینکڑوں سیٹلائٹ تصاویر کو بنیاد بنایا ہے، جن میں فیکٹری کی عمارتوں کو چمکدار رنگوں کی دھاتی چھتوں کے ساتھ ممتاز کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
اگست میں، تحقیقات نے سنکیانگ کے علاقے میں جیلوں کے نشانات والی سینکڑوں عمارات یا حراستی کیمپوں کو بے نقاب کیا تھا، جن میں سے بہت سی عمارات گزشتہ تین برسوں میں تعمیر کی گئی ہیں۔
حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ ایک ملین سے زائد یغور، قازق اور دیگر ترک اقلیتوں کو سنکیانگ میں جیل جیسے حالات والے حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
اے ایف پی نے بتایا کہ چینی حکومت مُصر ہے کہ وہ "حرفتی تربیتی مراکز" ہیں، مگر کارکنان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو تشدد اور جبری مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بزفیڈ نیوز نے کہا کہ ایک نیا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ کم از کم 135 عمارات میں فیکٹریوں کی عمارات بھی موجود ہیں۔ محققین اور سابقہ قیدیوں کے مطابق، "ان جیسی عمارات کے اندر ایک وسیع پیمانے پر جبری مشقت تقریباً یقینی طور پر وقوع پذیر ہو رہی ہے۔"
تجزیئے میں انکشاف ہوا ہے کہ حراستی مراکز کے قریب یا ان کے اندر فیکٹریوں کے عمارات "ایسے طریقے سے بڑھ رہی ہیں جو وسیع پیمانے پر حراستی مہم میں تیز تر توسیع کی عکاسی کرتا ہے۔"
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
مختلف ممالک اور تنظیموں، بشمول امریکہ، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ (یو این)، نے سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ، بالکل حال ہی میں مبینہ طور پر جبری منظوری کی ان روایات کو اجاگر کرتے ہوئے جن میں یغور مسلمان شامل ہیں۔
انہوں نے بالخصوص ٹیکسٹائل کی رسد کے سلسلے میں مبینہ بدسلوکیوں کو اجاگر کیا ہے، جہاں جبری طور پر یا بہت سستے نرخوں پر مزدوری سے سنگیانگ میں چنی گئی کپاس کو بین الاقوامی منڈی میں سستے لباس بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
21 دسمبر کو امریکی وزارتِ خارجہ نے ان چینی حکام کے لیے ویزوں کے اجراء پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جن کے بارے میں اقلیتی گروہوں اور دیگر کے خلاف استحصالی پالیسیوں یا اقدامات کے لیے ذمہ دار ہونے، یا ان میں ملوث ہونے کا یقین ہے۔
ایک بیان میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ یہ فعل "امریکی حکومت کے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کو چینی عوام کے بڑھتے ہوئے استحصال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے عزم کا اظہار ہے۔"
انہوں نے کہا کہ سنہ 2020 میں، امریکہ نے "سنکیانگ میں ہونے والے خوفناک مظالم، تبت تک رسائی پر پابندیوں، اور ہانگ کانگ کی وعدہ کردہ خودمختاری کی تباہی میں ملوث سی سی پی حکام پر ویزے کی پابندیاں اور مالی پابندیاں عائد کی تھیں۔"
9 ستمبر کو، 60 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے 321 سول سوسائٹی گروہوں کے ایک عالمی اتحاد نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ "چینی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دینے کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی طریقۂ کار فوری طور پر وضع کرے"۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، دستخط کرنے والوں نے سنکیانگ سمیت چین بھر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر توجہ دینے، نیز دنیا بھر میں چین کی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اثرات کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
چین کی جانب سے اقلیتوں کا استحصال ہنوز جاری ہے۔ 31 دسمبر کو، بیجنگ نے تصدیق کی تھی کہ ایک یغور مسلمان ڈاکٹر کو دہشت گردی کے الزامات پر جیل میں ڈالا گیا تھا۔
گلشن عباس دو برس قبل حراست میں لاپتہ ہو گئی تھی، مگر اس کے رشتے داروں نے 30 دسمبر کو امریکی کانگریسی کمیٹی کو بتایا کہ 58 سالہ خاتون کو یغوروں کی جانب سے سرگرمی سے وکالت کرنے کی وجہ سے 20 سال سزائے قید دی گئی تھی۔
جبری مشقت کے لیے ایک محاذ
سنکیانگ میں جبری مشقت اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ، مزدوروں کے حقوق کے وکلاء اور مبصرین نے بزفیڈ نیوز کو بتایا، "کہ کوئی بھی کمپنی جو وہاں پر اشیاء بناتی ہے دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس کے رسد کا سلسلہ اس سے پاک ہے"۔
اپنی رپورٹ میں میڈیا کمپنی کا کہنا تھا، "سنکیانگ میں چینی حکومت لوگوں کی اتنی گہرائی سے نگرانی کرتی ہے اور انٹرویوز پر اتنی کڑی نظر رکھتی ہے کہ آزادانہ طور پر یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے کہ کیا ایک فیکٹری جبری مشقت پر انحصار کرتی ہے یا نہیں۔"
اس میں کہا گیا ہے کہ دیہاتی کھیت مزدوروں کو فیکٹری کی ملازمتوں میں منتقل کر کے چینیوں کو غربت سے نکالنے کے لیے تیارکردہ اقتصادی پروگرام "حکومت کے لیے یہ چھپانے کا ایک مؤثر پردہ فراہم کرتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے گھر سے اتنا دور کیوں کام کر رہا ہے۔"
مگر جب فیکٹریاں حراستی مراکز کے اندر واقع ہوں، "تو یہ دعویٰ کرنا بہت ہی غیر معمولی بات ہے کہ مزدور اپنی مرضی سے یہاں کام کرتے ہیں"۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ بہت سی چینی فیکٹریاں حراستی کیمپوں کے اندر یا ان کے ساتھ واقع ہیں، اور امریکہ کے مقامی بلامنافع کام کرنے والے تحقیقاتی ادارے C4ADS نے 1،500 ایسی کمپنیوں کی شناخت کی ہے۔
چینی حکومت کی غربت مکاؤ مہم کے تحت، مفلوک الحال نسلی اقلیتوں کو ایسے شعبوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جن میں ملازمتیں موجود ہیں، مگر محققین کا کہنا ہے کہ یہ نام نہاد "مزدوروں کی منتقلیاں" جبری مشقت کے لیے ایک دکھاوا ہو سکتی ہیں۔
برطانیہ کے مقامی مرکز برائے اقتصادی و کاروباری تحقیق (سی ای بی آر) کے مطابق، جبکہ بیشتر معیشتوں کو کوروناوائرس کی وباء کے دوران بہت بڑا دھچکا لگا ہے، چین اب سنہ 2028 تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے ، ماضی میں کی گئی پیشین گوئی سے بھی پانچ سال پہلے۔
عالمی منڈی میں چین کا حصہ اس کی تکنیکی صنعت اور ذاتی حفاظتی آلات (پی پی ای) کی فروخت کے ذریعے بڑے سے بڑا ہو گیا ہے۔
عالمی وباء سے منافع کمانے کے لیے، چین نے قلت کو پورا کرنے کے لیے پی پی ای کی تیاری کی بہت بڑی کوشش کا آغاز کیا۔ سال کی پہلی ششماہی میں 73،000 سے زائد کمپنیوں نے بطور ماسک ساز انداراج کروایا -- بشمول صرف اپریل میں ہی 36،000 سے زائد نئی کمپنیوں نے -- جبکہ قیمتیں اور طلب میں اضافہ ہو رہا تھا۔
دی نیویارک ٹائمز کی جانب سے ایک ویڈیو رپورٹ، جس میں سینکڑوں ویڈیوز، فوٹوز اور سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے، کے مطابق، اس کوشش کے جزو کے طور پر، چینی حکام نے سنکیانگ کے علاقے میں مسلمان اقلیتوں کو پی پی ای کی فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کیا.
نظربندی اور تلقینِ عقیدہ
آسٹریلوی تزویراتی پالیسی ادارے، جس نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویز بند کیا ہے، نے بزفیڈ نیوز کو بتایا کہ حکومت کے مزدور منتقلی پروگرام کے تحت تفویض شدہ کام کرنے سے انکار کرنا "انتہائی مشکل" ہے۔
اس نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں "حراستی نظام اور سیاسی تلقینِ عقیدہ کے ذریعے پھنسایا جاتا ہے۔"
سابقہ قیدیوں اور چینی زبان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق، پروگرام کے شرکاء سخت پابندیوں اور متواتر نگرانی کے تابع ہوتے ہیں اور کیمپوں میں بھیجے جانے یا بات نہ ماننے کی صورت میں سزا دیئے جانے کے خوف میں زندگی گزارتے ہیں۔
کام کرنے کے بعد، ان پر "حب الوطنی کی تعلیم" میں شریک ہونا لازمی ہے، جس میں چینی زبان پڑھنے اور کھلے عام سی سی پی کی تعریف کرنے پر مجبور کیا جانا شامل ہے۔
ستمبر کی ایک رپورٹ میں، چینی حکومت نے کہا تھا کہ "اضافی مزدوروں کی منتقلی" کی اوسط فی سال 2.76 ملین افراد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
مزدوروں کو ٹیکسٹائل فیکٹریوں، خوراک کی تیاری کی پلانٹوں اور مذبح خانوں اور زرعی ملازمتوں جیسے کہ کپاس کی کاشت میں روزگار دیا جاتا ہے۔
جبکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان پروگراموں میں کتنے مزدوروں کو کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کم اجرت دی جا رہی ہے یا بصورتِ دیگر بدسلوکی کی جا رہی ہے، بزفیڈ نیوز کی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے اور بڑھ رہی ہے۔
امریکی وزارتِ محنت نے اندازہ لگایا کہ 100،000 یغور اور دیگر نسلی اقلیتیں جبری مشقت کر رہی ہیں، جبکہ امریکہ کے مقامی مرکز برائے تزویراتی و بین الاقوامی مطالعات نے کہا کہ جبری مشقت "ممکنہ طور پر ایک کافی بڑے پیمانے" پر ہو رہی ہے۔