حقوقِ انسانی

انسدادِ انتہاپسندی کے بیانیہ کو درست ثابت کرنے کے لیے، چین سنکیانگ کی آبادی میں کمی کو گُھما پھرا کر استعمال کر رہا ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایک ایغور خاتون، چار جون 2019 کو کاشغر، سنکیانگ ریجن، چین میں اپنے بچوں کے ساتھ سڑک پر کھڑی ہے۔ بیجنگ نے سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر سیکورٹی کریک ڈاوُن کیا ہے، جہاں ایک ملین سے زیادہ ایغور مسلمانوں اور دیگر مسلمان اقلیتیوں کو مبینہ طور پر عسکری نظر بندی کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جنہیں بیجنگ نے "ووکیشنل تعلیمی مراکز" کے طور پر بیان کیا ہے، جن کا مقصد لوگوں کو مذہبی انتہاپسندی سے دور لے جانا ہے۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

ایک ایغور خاتون، چار جون 2019 کو کاشغر، سنکیانگ ریجن، چین میں اپنے بچوں کے ساتھ سڑک پر کھڑی ہے۔ بیجنگ نے سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر سیکورٹی کریک ڈاوُن کیا ہے، جہاں ایک ملین سے زیادہ ایغور مسلمانوں اور دیگر مسلمان اقلیتیوں کو مبینہ طور پر عسکری نظر بندی کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جنہیں بیجنگ نے "ووکیشنل تعلیمی مراکز" کے طور پر بیان کیا ہے، جن کا مقصد لوگوں کو مذہبی انتہاپسندی سے دور لے جانا ہے۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

واشنگٹن -- بیجنگ کی طرف سے سنکیانگ میں ایغور حقوق کے سلگتے ہوئے مسئلہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں نے، مسلمانوں پر چین کی طرف سے کیے جانے والے جبر پر، بین الاقوامی مذمت میں اضافہ کیا ہے۔

امریکہ میں چین کے سفارت خانے نے گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے، تعریف کی کہ کیسے اکثریتی مسلمان ایغور برادری کی خواتین اب "بچے پیدا کرنے کی مشینیں" نہیں رہی ہیں اور اس کا سہرا علاقے سے انتہاپسندی کا خاتمہ کیے جانے کے سر جاتا ہے۔

سفارت خانے نے 7 جنوری کو ایک مضمون کا لنک ٹوئٹ کیا، جس میں سرکاری خبر رساں چائینا ڈیلی نے سنکیانگ میں 2018 سے آبادی میں آنے والی تبدیلی، کے بارے میں سنکیانگ ترقیاتی تحقیقی مرکز کی ایک غیر اشاعت شدہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنکیانگ کے شہری، اپنی مذہبی انتہاپسندی، کے باعث خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کرتے تھے اور ایسی انتہاپسندی کے خاتمہ نے، ایغور خواتین کو اس بات کے انتخاب کا زیادہ حق دیا ہے کہ آیا وہ بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں یا نہیں۔

یہ تصویر جو کہ 14 اکتوبر 2018 کو لی گئی، میں ہامی، سنکیانگ ریجن، چین میں ایک کسان کو کپاس چنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

یہ تصویر جو کہ 14 اکتوبر 2018 کو لی گئی، میں ہامی، سنکیانگ ریجن، چین میں ایک کسان کو کپاس چنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

سفارت خانے نے اس تحقیق سے ٹوئٹ کیا کہ "سنکیانگ میں ایغور خواتین کے ذہنوں کو آزاد کیا گیا اور صنفی مساوات اور تولیدی صحت کو فروغ دیا گیا جس سے وہ اب بچے پیدا کرنے کی مشینیں نہیں رہی ہیں"۔

اس میں جرمنی کے محقق ایڈرین زینز، کا نام لے کر ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "یہ تبدیلی ایغور آبادی کی "جبری نس بندی" کے باعث نہیں آئی ہے، جیسا کہ مغربی محقیقین اور سیاست دانوں کا دعوی ہے۔

زینز کی طرف سے گزشتہ سال شائع کیے جانے والے ایک اسٹوڈیو کے مطابق، چین کی حکومت نے اغور خواتین کی بڑی تعداد کی زبردستی نس بندی کی اور ان پر دباوُ ڈالا کہ وہ اپنے ایسے حمل گرا دیں، جو پیدائش کے کوٹہ سے بڑھ گئے ہیں۔

چائنا ڈیلی نے تحقیقی مرکز کی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ "سنکیانگ میں بچے پیدا کرنے کی عمر کے جوڑوں کو محفوظ، موثر اور مناسب مانع حمل طریقے میسر ہیں-- ان میں ٹیوبیل لگیشن اور انٹراٹورین آلات لگانا شامل ہیں - اور یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے کہ آیا وہ ان طریقوں کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں اور ان فیصلوں کا مکمل احترام کیا جاتا ہے"۔

اخبار نے خبر دی ہے کہ "اس کے نتیجہ میں، سنکیانگ میں شرحِ پیدائش جو کہ 2017 میں 1.6 فیصد تھی 2018 میں کم ہو کر1 فیصد ہو گئی اور قدرتی آبادی میں اضافے کی شرح 1.1 فیصد سے کم ہو کر 0.6 فیصد ہو گئی"۔

اس میں کہا گیا کہ 2010 سے 2017 کے درمیان، ایغور کی آبادی میں25 سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ علاقے میں ہان (چینی نژاد) کی آبادی میں اسی دورانیے میں صرف 2 فیصد ہوا تھا۔

'آبادی پر زبردستی قابو پانا'

امریکی قانون سازوں نے سنکیانگ میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے، جبکہ وہ ایک اعلامیہ کو منظور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چین کی پالیسیاں نسل کشی کی تعریف پر پورا اترتی ہیں ۔

ٹوئٹر نے سفارت خانے کی پہلی ٹوئٹ کو اتار دیا اور کہا کہ یہ "ٹوئٹر کے قوائد کی خلاف ورزی کرتی ہے" مگر اس بارے میں مزید وضاحت نہیں دی۔

ایک وکالتی گروہ، کونسل برائے امریکی- اسلامی تعلقات، نے ٹوئٹر پر زور دیا کہ وہ وہ ٹوئٹ کو ہٹا دے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اُس نے اس پلیٹ فارم کو "انسانیت کے خلاف جرائم کا جشن منانے کے لیے" استعمال کیا۔

سفارت خانے نے بعد میں دوبارہ یہ خبر پوسٹ کی اور اس کا تعلق سرکاری ژنہوا نیوز ایجنسی سے جوڑا، جس نے زیادہ غیر ضرر رساں شہ سرخی استعمال کی: "تحقیق سے سنکیانگ کی آبادی میں تبدیلی کی وضاحت"۔

ژنہوا نے تحقیق کے حوالے سے خبر دی کہ "حالیہ سالوں میں، سنکیانگ میں نوجوان افراد نے جیون ساتھی اور افزائش نسل بڑھانے کے بارے میں، دقیانوسی خیالات کو ترک کر دیا ہے اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد، اب ذاتی ترقی پر زیادہ وقت اور توانائی صرف کرنے کا انتخاب کر رہی ہے"۔

ایک امریکی اہلکار نے سفارت خانے کے "جھوٹ" اور رپورٹ کے ہولناک دعووُں پر نفرت کا اظہار کیا۔

بین الاقوامی مذہبی امور کے بارے میں امریکی مندوب سیم براؤن بیک نے ٹویٹ کیا کہ "آبادی پر زبردستی قابو پانا، تولیدی صحت فراہم کرنا نہیں ہے۔ ایغور خواتین اپنی مذہبی آزادی اور اپنے منقولہ حقوق سے، وقار کے ساتھ لطف اندوز ہونے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتی ہیں"۔

استحصال کو چھپانے کی کوشش

چین کے سفارت خانے کی ٹوئٹس مبینہ طور پر بیجنگ کی طرف سے سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں، کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش ہیں۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران، بیجنگ نے ایک ملین سے زیادہ مسلمانوں کو، جن میں کرغیر اور قازق نژاد بھی شامل ہیں، ایسے کیمپوں میں زبردستی بھیجا جہاں "ہولناک اور منظم استحصال" ہوا۔

اگست میں بزفیڈ نیوز کی طرف سے شائع ہونے والی تحقیق میں اس استحصال، محرومی اور معمول کی بےعزتی پر روشنی ڈالی گئی جس کا سامنا مسلمانوں کو ان خفیہ کیمپوں کے اندر کرنا پڑتا ہے۔

کیمونسٹ ریاست نے سنکیانگ میں 100 سے زیادہ نئے حراستی مرکز قائم کیے ہیں۔ یہ بات بزفیڈ کی ایک اور تفتیش جو کہ دسمبر میں شائع ہوئی، سے آشکار ہوئی۔

بیجنگ نے ان کیمپوں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں "ووکیشنل تربیتی مراکز" قرار دیا ہے جن کا مقصد دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا اور ملازمت کے مواقع بہتر بنانا ہے مگر سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو تشدد اور جبری مشقت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مزدوروں کے حقوق کے وکلاء اور مشاہدین نے بزفیڈ نیوز کو بتایا کہ "بیجنگ میں جبری مشقت اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ وہاں پر سامان بنانے والی کوئی بھی کمپنی، یہ دعوی نہیں کر سکتی کہ اس کی سپلائی چین اس سے پاک ہے"۔

میڈیا آوٹ لٹ نے اپنی خبر میں کہا کہ "سنکیانگ میں چین کی حکومت لوگوں کی اتنی کڑی نگرانی اور انٹرویوز کا اتنا قریبی جائزہ لیتی ہے کہ اس بات کا آزادانہ طور پر اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آیا کوئی کارخانہ جبری مشقت پر انحصار کرتا ہے کہ نہیں"۔

'جبری مشقت'

کرونا وائرس کی عالمی وباء کے نتیجہ میں، چین کی حکومت نے سنکیانگ کے علاقے میں مسلمان اقلیتوں کو ذاتی حفاظتی سامان کے کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ خبر نیو یارک ٹائمز نے جولائی میں، کئی سو وڈیوز، تصاویر اور سرکاری دستاویزات میں موجود شواہد کے حوالے سے دی تھی۔

انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلمانوں کو کپاس چننے اور اس کو پراسیس کرنے والے کارخانوں میں کام کرنے پر بھی مجبور کیا گیا ہے۔

امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے 2 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ سنکیانگ کے علاقے سے، کپاس کی برآمد کو روک دے گا، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ "جبری مشقت" سے کاشت کی گئی ہے۔

برطانیہ نے منگل (12 جنوری) کو چین کی حکومت پر، ایغور نژاد افراد کے انسانی حقوق، کی ایسی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام لگایا جو "بربریت" تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایسا سامان، جسے جبری مشقت سے تیار کیے جانے کا شبہ ہو، کی برآمد پر پابندی لگانے کے لیے نئے قواعد کا اعلان کیا۔

خارجہ سیکریٹری ڈومینک راب نے کہا کہ استحصال "صنعتی پیمانے پر کیا گیا"۔

انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ "یہ حقیقی طور پر ہولناک بربریت، جس کے بارے میں ہمیں امید تھی کہ وہ کسی اور زمانے میں گم ہو چکی ہے، آج کے دور میں اس موجودہ وقت میں، بین الاقوامی برادری کے نمایاں ارکان میں ہو رہی ہے"۔

"اس کا جواب دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے"۔

راب نے برطانوی اداروں کے لیے ایک منصوبے کا خاکہ پیش کیا "جو نادانستہ طور پر یا دانستہ طور پر، سنکیانگ کے ایغور افراد کے خلاف کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اس میں تعاون کرتے ہیں۔

ان اقدامات میں برطانیہ کے جدید غلامی کے قانون کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے تاکہ ایسے کاروباروں کو جرمانہ کیا جا سکے، جو شفافیت کے قواعد پر عمل نہیں کرتے، قانون کو نجی شعبہ تک بڑھانا اور سنکیانگ کے گرد برآمد کے کنٹرول کا "فوری طور پر جائزہ" لینا شامل ہے۔

سُپرمارکیٹ کی برطانوی چین مارکس اینڈ سپنسر نے 6 جنوری کو ٹوئٹ کیا کہ وہ ایغور افراد سے کیے جانے والے چینی سلوک، کے جواب میں سنکیانگ کے علاقے کی کپاس اور اس کے کپڑوں کو استعمال نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔

دو سال پہلے، امریکہ کے ادارے بیجر سپورٹس ویئر نے اعلان کیا تھا کہ وہ چینی ملبوسات کی کمپنی ہیتیان تائڈا سے کپڑے لینا بند کر دے گی کیونکہ اسے تشویش ہے کہ وہ سنکیانگ کے حراستی کیمپوں میں جبری مشقت لے رہی ہے۔

دریں اثناء گزشتہ ماہ، فرانسیسی فٹ بالر انتھونی گریزمین نے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹیلیکام جائنٹ ہواوے کے ساتھ "اپنی شراکت فوری طور پر ختم کر دیں گے" اور انہوں نے "سخت شکوک" کا حوالہ دیا کہ وہ چینی حکام کی طرف سے ایغور اقلیتوں کی، کی جانے والی نگرانی میں ملوث ہے۔

حالیہ ہفتوں میں کئی خبروں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ حکام ٹیکنالوجی، جس میں چہروں کی شناخت کرنے والا سافٹ ویئر بھی شامل ہے، کو سنکیانگ میں غالب مسلمان اقلیتی گروہوں کی نگرانی اور گرفتاری کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

علی بابا، ہواوے اور دیگر چینی ادارے، بیجنگ کی حکومت کی طرف سے ایغور باشندوں اور دیگر مسلمان اقلیتوں پر کیے جانے والے جبر سے دور ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں-- مگر جرم میں شرکت کا ثبوت، انہیں قابلِ مذمت بناتا جا رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500