حقوقِ انسانی

چین کی جانب سے یغور مسلمانوں پر جبر میں اضافہ، سزاؤں میں طوالت

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

کاشغر، سنکیانگ، چین کے شمالی میں آرٹکس شہر کا حرفتی مہارتوں کی تعلیم و تربیت کے مرکز کی 2 جون 2019 کی ایک تصویر، جو چینی حکومت کے 'دوبارہ تعلیم' کے کیمپوں میں سے ایک ہے، جہاں زیادہ تر مسلمان نسلی اقلیتوں کو قید کیا گیا ہے۔ [گریک بیکر/اے ایف پی]

کاشغر، سنکیانگ، چین کے شمالی میں آرٹکس شہر کا حرفتی مہارتوں کی تعلیم و تربیت کے مرکز کی 2 جون 2019 کی ایک تصویر، جو چینی حکومت کے 'دوبارہ تعلیم' کے کیمپوں میں سے ایک ہے، جہاں زیادہ تر مسلمان نسلی اقلیتوں کو قید کیا گیا ہے۔ [گریک بیکر/اے ایف پی]

بیجنگ -- بدھ (24 فروری) کے روز ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے خبر دی ہے کہ چینی حکومت نے ڈرامائی طور پر سنکیانگ میں مسلمان اقلیتوں پر رسمی عدالتی نظام کے ذریعے جبر میں اضافہ کر دیا ہے، جس میں مشکوک الزامات جیسے کہ "چوری کےجھگڑوں" اور دیارِ وطن میں مقیم رشتے داروں کو تحائف دینے پر طویل عرصے کی سزائے قید دی جا رہی ہے۔

جرائم پر یہ سزائیں سنکیانگ میں "سیاسی تعلیم" کے کیمپوں میں اندازاً ایک ملین یغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کی حراست کے علاوہ ہیں۔.

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2016 کے بعد سے شمال مغربی علاقے کے 250،000 سے زائد باشندوں کو باضابطہ طور پر سزا سنائی گئی ہے اور جیل میں ڈالا گیا ہے۔

ایک بیان میں ایچ آر ڈبلیو کی محقق مایا وینگ نے کہا، "قانونی لیپاپوتی کے باوجود، سنکیانگ کی جیلوں میں قید بیشتر افراد عام لوگ ہیں جنہیں اپنی زندگیاں جینے پر آمادہ ہونے اور اپنے مذہب کی پیروی کرنے پر سزائیں سنائی گئی ہیں"۔

2 جون 2019 کو، کاشغر، سنکیانگ، چین کے قریب ایک فوجی ہسپتال کے باہر ایک یغور خاتون ایک پراپیگنڈہ پینٹنگ کے سامنے اپنی موٹرسائیکل کھڑی کر رہی ہے، جس میں فوجیوں کو ایک یغور خاندان کے ساتھ ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

2 جون 2019 کو، کاشغر، سنکیانگ، چین کے قریب ایک فوجی ہسپتال کے باہر ایک یغور خاتون ایک پراپیگنڈہ پینٹنگ کے سامنے اپنی موٹرسائیکل کھڑی کر رہی ہے، جس میں فوجیوں کو ایک یغور خاندان کے ساتھ ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ سنکیانگ کے علاقے میں فوجداری سزاؤں میں سنہ 2017 اور 2019 کے درمیان یغوروں اور دیگر بیشتر مسلمان اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران اضافہ ہوا تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے، تنظیم کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کی عدالتوں نے سنہ 2017 میں لگ بھگ 100،000 ملزمان کو سزائیں دیں، جبکہ سنہ 2016 میں یہ 40،000 سے بھی کم تھیں۔

حقوق کی تنظیم نے کہا کہ پولیس، وکلائے استغاثہ اور عدالتوں کو دباؤ میں رکھا گیا تھا کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے نام پر "فوری اور سخت سزائیں دیں،" جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو کسی اصل جرم کا ارتکاب کیے بغیر ہی قید کی سزا دے دی گئی۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ عدالتوں نے "دوسروں کو یہ بتانے کہ 'حرام اور حلال کیا ہے'" اور ترکی میں مقیم رشتے داروں کو تحائف بھیجنے جیسی سرگرمیوں کے لیے بھی سزائیں دیں، اس کا مزید کہنا تھا کہ سزائے قید کو طویل کر دیا گیا ہے۔

سنہ 2017 سے قبل، تقریباً 11 فیصد سزاؤں کی مدت پانچ سال سے زیادہ تھی۔ سنہ 2017 میں، یہ شرح فیصد 87 ہو گئی۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کے نتائج کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ حقوق کی تنظیم "چین سے متعلق امور میں ہمیشہ سے تعصب سے بھری رہی ہے، اکثر چین کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے بیانات پھیلاتی ہے، اور ان کے الزامات پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔"

بیجنگ نے حساب برابر کرنے کے لیے، پہلے ہی "ان لوگوں پر پابندی عائد کر دی ہے جنہوں نے ہانگ کانگ سے متعلقہ معاملات میں برا طرزِعمل اپنایا تھا،" جن میں ایچ آر ڈبلیو کے ڈائریکٹر کینیتھ روتھ بھی شامل ہیں۔

بڑھتی ہوئی مذمت

سنکیانگ میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ چین کا سلوک اور ان کی اسیری، جس میں منظم اجتماعی زیادتی، خواتین کو جبراً بانجھ بنانا اور جبری مشقت کے نظام کے اطلاق کے الزامات شامل ہیں، نے بین الاقوامی طور پر مذمت کرنے میں ہم آہنگی کو بڑھا دیا ہے۔

امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے سنکیانگ میں چین کی کارروائیاں نسل کشی کے مترادف ہیں، جبکہ منگل کے روز کینیڈا کے قانون سازوں نے ایسا ہی ایک اعلامیہ منظور کیا۔

بدھ کے روز فرانسیسی وزیرِ خارجہ جین-ویس لی دریان نے یغور اقلیت کے ساتھ چین کی پالیسیوں کی مذمت کی۔

جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے، لی دریان نے کہا کہ سنکیانگ سے گواہوں کے بیانات اور دستاویزات "یغوروں کے ساتھ ناروا افعال، اور بڑے پیمانے پر جاسوسی کے ایک نظام اور ادارہ جاتی جبر" کی طرف اشارہ کرتے ہیں"۔

سنکیانگ میں کیمپوں کی موجودگی سے شروع میں انکار کرنے کے بعد، بیجنگ نے بعد میں انہیں حرفتی تربیتی مراکز کہہ کر ان کا دفاع کیا تھا جن کا مقصد اسلامی انتہاپسندی کی کشش کو کم کرنا ہے۔

چینی وزیرِ خارجہ وینگ ییی نے سوموار کے روز کہا کہ سنکیانگ میں نسلی اقلیتوں کے ساتھ بیجنگ کا سلوک چین کی انسانی حقوق میں پیش رفت کی "روشن مثال" ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین نے اپنے آپ کو انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ "ہمیشہ وابستہ" رکھا ہے، انہوں نے سنکیانگ اور تبت میں فی کس جی ڈی پی میں ترقی اور متوقع زندگی کو انسانی حقوق کے تحفظ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

جنوری میں، چینی سفارتکاروں نے سنکیانگ میں آبادی کی حالیہ اور شدید کمی کا حقوقِ نسواں کی کامیابی کے طور پر دفاع کیا تھا، جس میں حکومت کی جانب سے خواتین کو جبراً بانجھ بنانے پر قابلِ اعتماد آزاد تحقیق کو رد کیا گیا تھا۔

سنکیانگ ترقیاتی تحقیقی مرکز کی جانب سے سنہ 2018 کے بعد سنکیانگ میں آبادی میں تبدیلی پر ایک غیر مطبوعہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ میں چین کے سفارتخانے نے ٹویٹ کیا تھا، "سنکیانگ میں [یغور] خواتین کے ذہنوں کو آزادی دلائی گئی اور صنفی مساوات اور تولیدی صحت کو فروغ دیا گیا، جس سے وہ اب مزید بچے پیدا کرنے والی مشینیں نہیں رہیں"۔

حقوق کی تنظیموں اور کارکنان کا کہنا ہے کہ چینی حکمرانی میں تبت کے عوام نے بھی اپنے مذہب اور ثقافت پر سخت پابندیاں برداشت کی ہیں -- بشمول بھکشوؤں کی خانقاہوں کا انہدام -- جس کا اختتام حالیہ برسوں میں تبت کے لوگوں کی جانب سے خودسوزی کے کئی مظاہروں پر ہوا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500