بیجنگ -- ہانگ کانک کی جمہوریت پسند تحریک کے بڑھتے ہوئے خوف سے، بیجنگ، نیم خود مختار شہر میں اختلافِ رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتا رہا ہے، جس سے ایشیاء میں دیگر ممالک کو متنبہ کیا جا رہا ہے، جہاں چین سیاسی، معاشی اور ثقافتی فوائد کے لیے مقابلے میں ہے۔
آزادیٔ رائے اور جمہوری آرزوؤں کو لگنے والے تازہ ترین دھچکے میں، 11 نومبر کو بیجنگ نے ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لیم کو اختیار دیا ہے کہ وہ کسی بھی رکنِ اسمبلی کو ناکافی طور پر محبِ وطن سمجھے جانے پر رجوع کا حق دیئے بغیر معطل کر دیں۔
انہوں نے فوری طور پر اس اختیار کو چار جمہوریت پسند ارکانِ اسمبلی پر استعمال کیا، 15 دیگر احتجاجاً مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہو گئے، جس سے ہانگ کانگ کی کبھی پُرجوش قانون ساز اسمبلی چینی وفاداروں کے ایک اجتماع میں تبدیل ہو گئی ہے۔
ہانگ کانگ میں چینی وزارتِ خارجہ نے 12 نومبر کو قانون ساز کے نکالے جانے کو شہر کے لیے "درست دوا" قرار دیا۔
بیجنگ نے کہا کہ اس نے اس کے بعد ہونے والے واک آؤٹ کو چینی اختیار کے لیے ایک "واضح چیلنج" کے طور پر دیکھا ہے۔
شروع میں چاروں کو ہانگ کانگ کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل کیا گیا تھا، جو 6 ستمبر کو ہو رہے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کی انہوں نے امریکہ سے ہانگ کانگ کے حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انتخابات ملتوی ہو گئے تھے، جس کے لیے حکام نے کورونا وائرس کو موردِالزام ٹھہرایا تھا۔
نااہل کیے گئے ارکانِ اسمبلی میں سے ایک، ڈینس کووک نے 11 نومبر کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، "اگر قانون کی عملداری، نظاموں اور کاموں کو بچانا اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے لڑنے کا نتیجہ نااہل ہونے کی صورت میں نکلے گا، تو یہ میرے لیے ایک اعزاز ہو گا۔"
جمہوریت کے حامی قانون ساز لیم چیوک-ٹنگ نے 12 نومبر کو صحافیوں کو بتایا، "ہانگ کانگ کے باسیو -- ایک طویل، طویل تر وقت کے لیے تیار رہو جہاں معاشرے میں صرف ایک ہی آواز ہو۔"
"اگر آپ اختلافِ رائے کریں، تو اس سے بھی زیادہ دباؤ کے لیے تیار رہیں۔"
جمہوریت دشمنی
لیم کے فیصلے کی بین الاقوامی طور پر بہت تیزی کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔
ہانگ کانگ کے نوآبادیاتی دور کے آخری گورنر، کرس پیٹن نے کہا، "ایک مرتبہ پھر، [چینی صدر] شی چن پنگ کی حکومت نے مظاہرہ کیا ہے کہ یہ جمہوری جوابدہی کی مکمل طور پر مخالف ہے، اور ان لوگوں کی بھی جو اس کے لیے کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔"
یورپی یونین (ای یو) نے قانون سازوں کی "فوری بحالی" کا مطالبہ کیا، اور کینیڈا نے کہا کہ انہیں نکالا جانا "ہانگ کانگ میں ختم ہوتے انسانی حقوق" کا اثر ہے۔
12 نومبر کو ایک بیان میں یورپی یونین کا کہنا تھا، "تازہ ترین اقدامات ہانگ کانگ میں سیاسی تکثیریت اور آزادیٔ اظہارِ رائے کو لگنے ولا مزید سنگین دھچکا ہے۔"
بیان میں کہا گیا، "جیسا کہ جون میں "قومی سلامتی کے قانون" کے اطلاق سے پہلے ہی مظاہرہ کیا گیا ہے، بیجنگ علاقے کےحقوق اور آزادیوں کو صحیح سلامت رکھنے کے لیے "ایک ملک، دو نظام" کے وعدے سے پھر رہا ہے۔"
22 مئی کو چین کے چوٹی کے قانون ساز ادارے، نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی نے ہانگ کانگ میں "اطلاق کے طریقہ ہائے کار" کو مضبوط بنانے کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی۔
اس قانون کے لیے ضبطِ تحریر میں لائی گئی ایک تجویز میں کہا گیا کہ "یہ کسی بھی علیحدگی پسندی، قومی حکومت کی پامالی، دہشت گرد گروہ کی سرگرمیوں اور ایسے روئیوں کے خلاف حفاظت کرے گا، اسے روکے گا اور اس کے لیے سزا دے گا جو حقیقتاً قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔"
لیکن اس قانون کے بالکل اصل مندرجات کو ہانگ کانگ کی 7.5 ملین آبادی سے خفیہ رکھا گیا تاوقتیکہ 30 جون کو یہ نافذ ہو گیا۔
ایک قدم پیچھے ہٹانے کی بجائے، بیجنگ ہانگ کانگ پر اپنا دباؤ دگنا کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس سے ان ممالک کو ایک واضح انتباہ جاتا ہے جو اپنی آزادی پر زور دینے یا چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) پر سوال اٹھانے کی جرأت کرتے ہیں۔
چین کے ہانگ کانگ اور مکاؤ امور کے دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ژینگ ژیاؤمنگ نے منگل (17 نومبر) کو اعلان کیا کہ چین ہانگ کانگ کے اصل آئین، بنیادی قانون کو "بے عیب" بنانے کے لیے اصلاحات کرنے پر کام کر رہا ہے۔
رائٹرز کے مطابق، ژینگ نے کہا، "یہ وقت یہ چھانٹی کرنے کا وقت ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ لوگ جو "مادرِ وطن" کو تسلیم نہیں کرتے یا ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں وہ بنیادی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے جمہوریت پسند قانون سازوں کو نکالنے کی تعریف کی: "صرف وہ جو محبِ وطن ہیں انہیں اپنی جگہ رہنا چاہیئے؛ بصورتِ دیگر، انہیں نظام سے نکال دینا چاہیئے۔"
بیجنگ کی علاقائی چپقلشیں
بیجنگ کی اپنی عسکری طاقت کی نمائش کرنے کی بڑھتی ہوئی رضامندی اور اپنے ہمسایہ ممالک کے خودمختار علاقوں کی خلاف ورزی کرنا آس پاس کے حکام اور شہریوں کو چوکس کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر، حالیہ مہینوں میں چین کی جنگی جہازوں نے تائیوان کے فضائی دفاع کے علاقے کی خلاف ورزی متعدد بار کی ہے۔
بیجنگ، جو کہ خودمختار جزیرے کی جمہوریت کو اپنے علاقے کا حصہ تصور کرتا ہے، اسے اپنی سرزمین کے ساتھ ملانا چاہتا ہے -- اگر ضروری ہوا تو بزورِ طاقت۔
چینی جارحیت بھارت تک بھی وسیع ہو گئی ہے۔
وسط جون میں، چینی اور بھارتی فوجی لداخ کے علاقے میں دوبدو لڑائی میں آمنے سامنے آ گئے تھے جس میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے۔ چینی حکومت نے اپنے فوجیوں کی اموات ہونے کا اعتراف کیا مگر کوئی تعداد نہیں بتائی۔
ستمبر کے اوائل میں ایک اور واقعہ میں، سرحد پر 45 برسوں میں پہلی بار گولیاں چلیں۔ دونوں اطراف نے فائر کھولنے کا الزام ایک دوسرے پر لگایا۔
دریں اثناء وسطی ایشیاء میں، بیجنگ نے مقامی آبادی کی جانب سے ردِعمل دیکھنے کے لیے "اپنے" علاقوں کی واپسی کی تجویز پیش کی ہے جسے مبصرین خطے کی خودمختاری کو براہِ راست خطرہ کہتے ہیں۔
اپریل میں، ویب سائٹ Toutiao.com نے عنوان "آزادی حاصل کرنے کے بعد کرغیزستان اپنے وطن واپس کیوں نہیں لوٹا؟" کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا تھا۔
مضمون میں کہا گیا کہ ہزاروں برس سے کرغیزستان چین کا حصہ تھا تاوقتیکہ زارِ روس نے 1846 میں چین سے کُل 510،000 مربع کلومیٹر کا علاقہ چھین لیا، جس میں آج کا کرغیزستان بھی شامل تھا۔
اس میں کہا گیا کہ جب 1991 میں کرغیزستان نے سوویت یونین سے آزادی حاصل کر لی، یہ چین کو "واپس" نہیں گیا، جس کی بنیادی وجہ روس کا متواتر اثرورسوخ تھا۔
مضمون نے کرغیز معاشرے میں غصے کی لہر دوڑا دی، جس نے اس طباعت کو اشتعال انگیز قرار دے کر اس پر تنقید کی۔
خبروں کی ویب سائٹ Orbita.kg کے بشکیک میں نمائندے، مارس ابائیف نے کہا، "چین ناصرف کرغیزستان کی علاقائی سالمیت بلکہ اس کی خودمختاری کے لیے بھی ایک خطرہ بن رہا ہے۔ یہ ایک خطرے کی علامت ہے۔"
بیجنگ کی کرغیزستان میں پانیوں کی جانچ اس وقت ہو رہی ہے جب ملک سیاسی بحران میں پھنسا ہوا ہے، جسے روس کی جانب سے بھی واضح بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چین کی 'جھوٹی خبریں'
اپریل میں بھی، قازق وزارتِ خارجہ نے ایک نجی چینی ویب سائٹ Sohu.com پر "قازقستان چین کو واپس جانے کے لیے بیقرار کیوں ہے" کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیے جانے کے بعد چینی سفیر کو طلب کیا تھا۔
ملاقات کے بعد، اشتعال انگیز مضمون پر توجہ دینے کی بجائے، چینی سفیر نے فیس بُک پر لکھا کہ "معلومات کی جگہ کو جھوٹی خبروں کے کئی نمونوں سے پاک کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات قائم کیے جائیں۔"
وہ مبصرین جو چین کی معلوماتی پالیسی سے واقف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ویب سائٹیں بیجنگ کی جانب سے پیشگی منظوری کے بغیر "جھوٹی خبریں" نہیں پھیلاتیں۔
الماتے کے مکین سیرکجان بیلاش، جو انسانی حقوق کی تنظیم اتاجرت (مادرِ وطن) کے قائد اور ایک نسلی قازق ہیں جنہوں نے 2000 کے عشرے میں چین سے ہجرت کی تھی، نے کہا کہ Sohu.com سی سی پی کی جانب سے کنٹرول کی جاتی ہے اور بہت بڑے مالی وسائل اس کی صوابدید پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ Toutiao.com کو بھی سی سی پی کی سرپرستی حاصل ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ ان عام سی ویب سائٹوں سے بہت مختلف ہیں جو ہر طرح کی جھوٹی خبریں شائع کر سکتی ہیں۔"
بیلاش نے کہا، "یہ مطبوعات نشاندہی کرتی ہیں کہ چینی حکام وسط ایشیائی ممالک کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتے اور انہیں اپنا ہی علاقہ سمجھتے ہیں۔"
جولائی میں، چینی ذرائع ابلاغ نے ایک اشتعال انگیز عنوان "تاجکستان نے اپنی زمین چین کو منتقل کرنے کی ابتداء کر دی، اور ہاری ہوئی پامیر کی پہاڑیاں اس کے اصل مالک کو واپس کر دی گئی ہیں" کے تحت ایک مضمون شائع کیا تھا۔
اشاعت میں سنہ 2011 میں 1،158 مربع کلومیٹر علاقے کی چین کو منتقلی کا حوالہ دیا گیا تھا، جس پر اس وقت بہت سے تاجک ناراض ہو گئے تھے۔ تاجکستان نے وہ زمینیں اپنا کچھ قرضہ اتارنے کے لیے چین کو منتقل کی تھیں۔
اگست میں ایشیا-پلس نے خبر دی کہ تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا ہے جب تاجکستان پر چین کا قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے -- سنہ 2020 میں 1.2 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
چینی حکومت کا انسانی حقوق پر جبر اس کے اپنی تک وسیع ہے، جہاں یہ جبری طور پر یغور لوگوں کو اپنے اندر ضم کرنے کے کوشش کر رہا ہے بذریعہ ان کے نظریات کی کمیونسٹ نظریات کے ساتھ تبدیلی اور ان کی اسلامی روایات اور تاریخ کو مٹانا.