حقوقِ انسانی

روس اور چین نے امریکہ کے انتخابی اختلافات کو ملک کے اندر استبداد کا جواز بنا لیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

روس کے پولیس افسران 15 جولائی کو ماسکو میں ایک ایسے شخص کو گرفتار کر رہے ہیں جو یکم جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج پر احتجاج کر رہا تھا۔ ان انتخابات میں روسی کے آئین میں ایسی اصلاحات کی منظوری دی گئی تھی جنہوں نے صدر ولادیمیر پوٹن کو 2036 تک اقتدار میں رہنے کے قابل بنا دیا۔ [دیمیتار دلکوف/ اے ایف پی]

روس کے پولیس افسران 15 جولائی کو ماسکو میں ایک ایسے شخص کو گرفتار کر رہے ہیں جو یکم جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج پر احتجاج کر رہا تھا۔ ان انتخابات میں روسی کے آئین میں ایسی اصلاحات کی منظوری دی گئی تھی جنہوں نے صدر ولادیمیر پوٹن کو 2036 تک اقتدار میں رہنے کے قابل بنا دیا۔ [دیمیتار دلکوف/ اے ایف پی]

روس اور چین میں حکام نے ایسے عوامی بیانات جاری کیے ہیں جن میں اس انتخابی تشدد پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا، جو بدھ (6 جنوری) کو امریکہ میں پیش آیا اور اس خبر کو توڑ مروڑ کر استعمال کرتے ہوئے ان جبری مہمات کو جائز قرار دیا جو وہ اپنے ممالک میں چلا رہے ہیں۔

کریملین نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا مگر سرکاری ٹیلی ویژن نے یو ایس کیپیٹل پر ہونے والے حملے کی رات دیر گئے تک وسیع کوریج کی جس میں تشدد کی فوٹیج کے پیچھے آرکسٹرا کی ڈرامائی موسیقی ڈالی گئی تھی۔

روس کی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی امورِ خارجہ کی کمیٹی کے چیرمین کونسٹنٹین کوساچیف نے فیس بک کی ایک پوسٹ میں کہا کہ "امریکہ میں جمہوریت کا جشن ختم ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ بالکل زوال پذیر ہو گیا ہے اور میں یہ سب کچھ کسی غرور کے بغیر کہہ رہا ہوں"۔

وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاکرووا نے کہا کہ یو ایس کیپیٹل میں گھنسے کا الزام امریکہ کے نظام کے سر جاتا ہے۔

چین کی پولیس 6 ستمبر کو ہانگ کانگ میں ان مظاہرین کو گرفتار کر رہی ہے جو حکومت کی طرف سے قانون ساز کونسل کے انتخابات کو ملتوی کیے جانے اور ملکی سیکورٹی کے اس قانون کے خلاف ریلی نکال رہے تھے، جسے ملک کے اندر اختلافات کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ [ڈیل ڈی لا رے/ اے ا یف پی]

چین کی پولیس 6 ستمبر کو ہانگ کانگ میں ان مظاہرین کو گرفتار کر رہی ہے جو حکومت کی طرف سے قانون ساز کونسل کے انتخابات کو ملتوی کیے جانے اور ملکی سیکورٹی کے اس قانون کے خلاف ریلی نکال رہے تھے، جسے ملک کے اندر اختلافات کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ [ڈیل ڈی لا رے/ اے ا یف پی]

روس کے جمہوریت مخالف قاعدے

کسی بھی قسم کے جمہوری قاعدوں کے تضاد میں، روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے "زندگی بھر کے لیے صدر" کے طور پر اقتدار پر قبضہ کیا اور نیا قانون پوٹن اور ان کے خاندان کو، اپنی پوری زندگی کے دوران انجام دیے جانے والے کسی بھی جرم پر مقدمہ چلائے جانے سے معافی اور انہیں تلاشی، گرفتاری اور تفتیش سے مستشنٰی قرار دیتا ہے۔

روس میں مخالفت کی کسی بھی چنگاری کو جلد از جلد اور ہلاکت انگیز طریقے سے بجھا دیا جاتا ہے جس کا ایک ثبوت حال ہی میں الیکسی نیولنی کو زہر دیے جانے کی کوشش ہے۔

روس کے تبصرہ نگاروں نے طویل عرصے سے امریکہ میں موجود تقسیم کے بارے میں، خوشی سے بتایا ہے جبکہ کریمیلن نے اس تقسیم کی، مداخلت اور غلط معلومات کی ایک مہم سے پرورش کی ہے جس میں 2016 کے انتخابات میں دخل اندازی کرنے کی مبینہ کوششیں بھی شامل ہیں۔

کریملین کے حمایت یافتہ ہیکر امریکہ کی حکومتی ایجنسیوں پر ہونے والے بہت سے سائبر حملوں، کے پیچھے بھی رہے ہیں جو کہ ملک میں عدم استحکام لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

روس کی دوسری شخصیات نے بظاہر، امریکی کیپیٹل کے واقعات کو ماسکو کی ملکی پالیسیوں، کو جائز ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

روس کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کی ٹیلی کمیونیکیشنز کمیٹی کے ایک رکن اینتن گوریلکن نے کہا کہ ان واقعات سے سوشل میڈیا کو بہتر طور پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

انہوں نے اپنے ٹیلیگرام چینل میں کہا کہ "سوشل میڈیا کو قانون کے اندر رہتے ہوئے، سخت قواعد کے تحت کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ اطلاعات کی آزادی انتہاپسندوں کے لیے ایک ہتھیار بنتی جا رہی ہے"۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے سوشل میڈیا پر کنٹرول کو سخت کرنے پر، بارہا روسی حکومت کی مذمت کی ہے۔

واشنگٹن نے پوٹن کی طرف سے اختلافات کو دبانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ہمیشہ سخت تنقید کی ہے، حال ہی میں روس پر، گزشتہ ماہ ایک نئے قانون سے "اپنی سول سوسائٹی پر جبر کو بڑھانے" کا الزام لگایا، جس کے تحت این جی اوز اور ذرائع ابلاغ، جسے غیر ملکی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے، کے خلاف قواعد کو وسعت دی گئی۔

'خوبصورت نظارہ

دریں اثناء، چین کا انٹرنیٹ انتخابی جھگڑوں پر خوشی سے پھوٹ پڑا۔

جمعرات کی صبح کو، ریاستی میڈیا ٹیبلوئڈ گلوبل ٹائمز نے ہانگ کانگ کے مظاہرین جو کہ جولائی 2019 میں شہر کی قانون ساز کونسل کی عمارت پر قبضہ کیے ہوئے تھے، کی تصویر کا موازنہ 6 جنوری کو واشنگٹن کے ہنگاموں کی تصویر، کے ساتھ کرتے ہوئے دونوں کو اکٹھا ٹوئٹ کیا۔

چین کی کیمونسٹ یوتھ لیگ نے ٹوئٹر جیسے پلٹ فارم ویئبو پر، بدامنی کو "خوبصورت نظارے" کے طور پر بیان کیا۔

بیجنگ کی وزارتِ خارجہ نے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا اور ہانگ کانگ میں جمہوری اختلافات کو دبانے کی چین کی مہم، کے حوالے سے کہا کہ "امریکہ میں کچھ لوگوں کو ردعمل، جس میں کچھ ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں، بالکل مختلف ہے"۔

وزارت کی ترجمان ہیوا چنینگ نے جمعرات کو ایک نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ردعمل میں انتہائی زیادہ تضاد ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور اس پر سنجیدگی اور گہرائی سے غور کیا جانا چاہیے"۔

یو ایس کیپیٹل پر دھاؤے کے بارے میں ہیش ٹیگ، چین کی ویئبو پر 7 جنوری کو 570 ملین دفعہ دیکھا گیا، اور استعمال کنندگان نے ہانگ کانگ کے مظاہرین کے لیے بین الاقوامی حمایت کا موازنہ ہجوم کی ہر طرف سے کی جانے والی مذمت کے ساتھ کیا۔

ویئبو کے ایک تبصرے میں، جسے 5,000 سے زیادہ لوگوں نے پسند کیا ہے، کہا گیا کہ "اس وقت، یورپ کے تمام ممالک کے رہنماؤں نے دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے اور واشنگٹن کے ہنگاموں کی مذمت کی ہے"۔

ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، جسے 4,500 سے زیادہ لوگوں نے پسند کیا، "گزشتہ سال ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل میں جو ہوا وہ یو ایس کیپیٹل میں دہرایا گیا"۔

انتہائی متضاد

اگرچہ ہتھکنڈے ایک جیسے تھے مگر دونوں قانون ساز اداروں پر دھاوے کی وجوہات اور محرکات میں انتہائی زیادہ فرق تھا۔

ہانگ کانگ کے مطاہرین قانون ساز کونسل کی عمارت میں گھس کر مکمل جمہوریت کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس غیر مقبول قانون کو روکنا چاہتے تھے جسے قانون کی غیر منتخب شدہ حکومت کی طرف سے تھوپا جا رہا تھا۔

چین کے نیم خودمختار علاقے کے شہریوں کو مکمل جمہوری حقوق حاصل نہیں ہیں اور اس صورت حال کے باعث کئی سالوں سے بڑے پیمانے پر مظاہروں نے جنم لیا ہے۔

بیجنگ نے 2019 کے ہنگاموں کے جواب میں کریک ڈاؤن کیا، بدامنی کے شکار شہر میں سخت سیکورٹی کا قانون نافذ کیا اور بڑی تعداد میں شہریوں کو گرفتار کر کے اختلافات کو کچل دیا۔

ہانگ کانگ میں کریک ڈاؤن 6 جنوری کو ڈرامائی طور پر بڑھ گیا اور پولیس نے حزب مخالف کی 53 شخصیات کو گرفتار کر لیا اور اسے مشاہدین نے "ہانگ کانگ میں جمہوریت پر ابھی تک سب سے بڑا واحد حملہ" قرار دیا ہے۔

اس کے برعکس، یو ایس کیپیٹل پر دھاوا بولنے والے ایک آزاد اور غیر جانب دارانہ صدارتی انتخاب کے نتائج کو بدلنا چاہتے تھے۔

بیجنگ سنکیانگ کے علاقے میں لاکھوں مسلمانوں کی گرفتاری اور انہیں دوبارہ سے تعلیم کا ذمہ دار بھی ہے جسے بہت سے لوگوں نے "نسل کشی" کے طور پر بیان کیا ہے۔

چین کی مسلمان اقلیت کے خلاف مہم میں تیزی کا مزید ثبوت بزفیڈ نیوز کی ایک تفتیش ہے جس میں آشکار ہوا کہ کیمونسٹ حکومت نے سنکیانگ کے علاقے میں مزید 100 نئے حراستی مراکز قائم کیے ہیں ۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھی بات ہے پوری دنیا میں یر جگہ اپنی ٹانگ اڑانے اور تباہی والا اور رائی جیسی خبر کو پہاڑ بنانے والے جب خود پر گزری تو کیسا محسوس ہوتا ہے یہ اس کو احساس ہونا چاہیے جب اپنے گھر میں آگ لگتی ہے تو کیسا لگتا ہے یہ امریکی عوام کو بھی سمجھ آنا چاہیے اور پوری دنیا کے میڈیا کو اس کی لمحہ با لمحہ کی خبریں دینی چاہیے اور بڑھا چڑھا کر تجزیے نشر کرنے چاہیے اور بہت سارے ملکوں کو مل کر اپنے شہریوں کو محتاط رہنے اور امریکہ کے سفر پر پابندی لگانی چاہیے

جواب