چینی حکامنے سنکیانگ میں ہزاروں مساجد کو شہید کر دیا ہے، یہ بات جمعہ (25 ستمبر) کو ایک آسٹریلوی تھنک ٹینک نے، شورش زدہ علاقے میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیون کی تازہ ترین رپورٹ میں کہی ہے۔
حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کا کہنا ہے کہ پورے شمال مغربی علاقے میں ایک ملین سے زائد یغور اور دیگر بیشتر مسلمان ترکی بولنے والے لوگوں کو کیمپوں میں قید کر دیا گیا ہے، جس سے مکینوں پر روایتی اور مذہبی سرگرمیوں کو ترک کر دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیاہے۔
آسٹریلوی سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹوٹ (اے ایس پی آئی) کی جانب سے ایک رپورٹ جو سیٹلائیٹ تصاویر کی بنیاد پر بنائی گئی ہے اور جس میں سینکڑوں مقدس مقامات کی دستاویز بندی اور شماریاتی ماڈلنگ کی گئی ہے، کے مطابق چینی حکام نے تقریباً 16،000 مساجد کو تباہ کر دیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے۔
اے ایف پی آئی کی مکمل رپورٹ یہاں سے پڑھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر تباہی پچھلے تین برسوں میں کی گئی اور اندازاً 8،500 مساجد کو تباہ کیا گیا، جس میں اُرمقی اور کاشغر کے شہری مراکز کے باہر مزید نقصان کیا گیا۔
تحقیق کے مطابق، بہت سی مساجد جو تباہی سے بچ گئیں ان کے گنبد اور مینار ہٹا دیئے گئے، جس کا اندازہ ہے کہ سنکیانگ بھر میں صحیح سالم اور نقصان زدہ مساجد کی تعداد 15،500 سے کم تھی۔
اگر یہ درست ہے، تو سنہ 1960 کے عشرے میں ثقافتی انقلاب سے پھوٹنے والی قومی تبدیلی کے عشرے کے بعد خطے میں مسلمانوں کی بہت کم عبادت گاہیں ہوں گی۔
اس کے برعکس، سنکیانگ کے کسی بھی مسیحی گرجا گھر اور بدھ مت کے مندر کو، جس کا تھنک ٹینک نے مطالعہ کیا، نقصان نہیں پہنچایا گیا اور تباہ نہیں کیا گیا۔
اے ایس پی آئی نے کہا کہ حکام نے سنکیانگ میں بڑے اسلامی مقدس مقامات کا لگ بھگ ایک تہائی تباہ کر دیا ہے -- بشمول مزارات، قبرستان اور زیارات کے راستے۔
گزشتہ برس اے ایف پی کی ایک تحقیق میں پایا گیا تھا کہ علاقے میں درجنوں قبرستانوں کو تباہ کر دیا گیا تھا، اور پیچھے انسانی ہڈیاں اور شکستہ گنبدوں کی اینٹیں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔
25 ستمبر کی رپورٹ سے ایک روز قبل اے ایس پی آئی نے کہا تھا کہ اس نے خطے میں حراستی مراکز کا ایک نیٹ ورک پکڑا ہے جو سابقہ اندازوں سے بہت بڑا ہے۔