چین کی طرف سے اپنی عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنےچین کی طرف سے اپنی عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنے ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کے خلاف بڑھتی ہوئی آمادگی، قرب و جوار کے حکام اور شہریوں کو چوکنا کر رہی ہے۔
تازہ ترین عسکری حملہ پیر (21 ستمبر) کو اس وقت ہوا جب چینی عسکری جیٹ جہاز پانچ دن کے دوران چوتھی دفعہ اس کے فضائی حفاظتی زون میں داخل ہوئے اور تائیوان کو اپنے فوجیوں کو اکٹھا کرنا پڑا اور وہ اینٹی میزائل نظام کو تعینات کرنے پر مجبور ہو گیا۔
تائیوان کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ چین کے دو وائے ایٹ اینٹی سب میرین جہاز، تائیوان کے جنوب مغربی فضائی دفاع کے شناختی زون میں داخل ہو گئے۔
گزشتہ ہفتے، چینی فائٹر اور بمبار جہازوں نے تین مرتبہ اسی زون کی خلاف ورزی کی تھی۔
بیجنگ جو کہ خودمختار جزیرے کو اپنے علاقے کا حصہ تصور کرتا ہے، اسے اپنی سرزمین میں شامل کر لینا چاہتا ہے -- اور اگر ضروری ہوا تو زبردستی بھی۔
تائیوان کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ تائیوان ان "مسلسل جارحیت اور دھمکیوں" کے سامنے "اپنے دفاع اور جوابی حملے کا حق رکھتا ہے"۔
وزیرِدفاع ین دی-فا نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "ہمارا بنیادی اصول مشتعل نہ کرنا ہے نہ کہ جھگڑوں کو بڑھانا، واقعات کو جنم دینا یا غلط فہمی پیدا کرنا نہیں ہے"۔
"مگر ہم جنگ سے ڈرتے نہیں ہیں اور ہمیں اپنے دفاع اور جوابی حملے کا ضروری حق قائم رکھتے ہیں"۔
حالیہ چینی جارحیت ہمسایہ ملک انڈیا تک بڑھ گئی ہے۔
جون کے وسط میں، چین اور انڈیا کے فوجی لداخ کے علاقے میں متشدد دو بدو لڑائی میں ملوث ہوئے تھے جس سے 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ چین کی حکومت نے ہلاکتوں کو تسلیم کیا تھا مگر انہوں نے کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے ہیں۔
انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سریوستاوا نے اس وقت کہا تھا کہ یہ جھڑپیں سرحد پر "چین کی طرف سے یک طرفہ طور پر پرانی صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش تھا"۔
اس وقت سے، دونوں ملکوں نے پہاڑی سرحد پر ہزاروں اضافی فوجی تعینات کیے ہیں۔
ستمبر کے آغاز میں ہونے والے ایک اور واقعہ میں، سرحد پر 45 سال کے عرصے میں پہلی بار فائرنگ ہوئی۔ دونوں اطراف نے ایک دوسرے پر اس فائرنگ کو شروع کرنے کا الزام لگایا۔
دریں اثنا، چینی فوج جنوبی روس میں کاوکاز (قفقاز) -2020 جنگی کھیلوں میں شرکت کر رہی ہے جن کا آغاز 21 ستمبر کو ہوا تھا اور جو ہفتہ (26 ستمبر) تک جاری رہیں گی۔
ان جنگی مشقوں میں 12,000 سے زیادہ فوجی شرکت کر رہے ہیں جن کے بارے میں مشاہدین کا کہنا ہے کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی جاری جارحیت کا حصہ ہیں جو علاقے کی ماحولیات، معیشت اور سیکورٹی پر ہونے والے اثرات کے بارے میں ان کی بے پرواہی کی عکاسی ہے۔
علاقائی جھگڑے
تائیوان کے وزیرِ خارجہ جوزف وو نے منگل (22 ستمبر) کو اس وقت بیجنگ پر زور دیا کہ وہ "مہذب بین الاقوامی معیارات" کی طرف واپس آئے جب چین کی وزارتِ حارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آبنائے تائیوان میں کوئی نام نہاد درمیانی حد نہیں تھی کیونکہ "تائیوان چینی علاقے کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے"۔ یہ خبر اے ایف پی نے دی ہے۔
گزشتہ سال، تائیوان نے چینی حکومت پر طویل عرصے سے موجود معنوی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا جب چین کے لڑاکا جیٹ جہازوں نے -- سالوں بعد پہلی بار -- پانی میں اس درمیانی حد کو پار کیا جو دونوں اطراف کو جدا کرتی ہے۔
وو نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سی سی پی (چائینیز کیمونسٹ پارٹی) کی اس کے خطرناک اور اشتعال انگیز الفاظ اور کاموں پر مذمت کرے جس سے امن کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے ۔۔۔ چین کو لازمی پیچھے ہٹنا چاہیے"۔
بیجنگ کو پہلے ہی اس کی اندرونِ ملک اور غیر ملکی پالیسیوں پر بین الاقوامی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہانگ کانگ کے آخری برطانوی گورنر کرس پیٹن نے برطانوی قانون سازوں کی طرف سے 8 جولائی کو منعقد کیے جانے والے مباحثے کو بتایا کہ "انڈیا سے جاپان تک --- آسٹریلیا سے کینیڈا تک، چین دنیا بھر میں دھونس سے اپنا راستہ ہموار کرتے رہے ہیں"۔
انہوں نے بیجنگ کی طرف سے ہانگ کانگ میں ایک متنازعہ سیکورٹی قانون نافذ کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس نے شہر کی محبت کی جانے والی خودمختاری اور جمہوری روایات کو ختم کر دیا تھا، کہا کہ "ہانگ کانگ میں جو ہوا وہ سی سی پی کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے وسیع سلسلے کا ایک حصہ ہے جو اس امر سے فائدہ اٹھا رہی ہے کہ ہم سب کرونا وائرس سے نپٹنے میں انتہائی مصروف ہیں"۔
بحیرہ جنوبی چین میں، بیجنگ نے دوسرے ملکوں کے علاقائی دعوؤں کی لاگت پر، مصنوعی جزیرے اور بھاری عسکری موجودگی قائم کر رہا ہے جو کہ وسائل حاصل کرنے کی ایک جرات مندانہ کوشش ہے۔
بیجنگ نے بحیرہ ہند کے ساتھ ساتھ بندرگاہوں کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے جس سے بحیرہ جنوبی چین سے سوئیز کینال تک دوبارہ ایندھن بھرنے اور سامان کی فراہمی کا ایک ہار بن گیا ہے۔ ظاہری طور پر تجارتی بندرگاہیں اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی بحریہ کو اپنی رسائی بڑھانے میں مدد فراہم کریں گی۔
چین کی حکومت حکمت عملی کے لحاظ سے اہم علاقوں اور بندرگاہوں کو عسکری طور پر استعمال کرنے کے لیے ملکوں پر اپنا مالیاتی غلبہ استعمال کر رہی ہے خصوصی طور پر گوادر، پاکستان اور جسک، ایران میں۔
مختلف طرح کا حملہ
چین کی حکومت ہمسایہ ممالک پر ذرا مختلف قسم کے سنگین حملوں میں بھی مصروف ہے -- یہ ایک انتہائی نفیس غیر ملکی اثر و رسوخ کو بدنام کرنے کی مہم میں ملوث ہے اور اس کے طریقوں میں رشوت، غلط معلومات کی مہمات، بلیک میل کرنا اور خفیہ سودے شامل ہیں۔
جبکہ ٹوئٹر، یو ٹیوب، گوگل اور فیس بک چین میں بند ہیں جو کہ خبروں اور معلومات تک رسائی پر پابندی لگانے کے لیے ایک "بڑی فائر وال" کو استعمال کرتا ہے، چین کے سفارت کار اور سرکاری ذرائع ابلاغ نہایت منافقت سے بیرونِ ملک کھلی سرحدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حالیہ سالوں میں ان پلیٹ فارموں پر جمع ہو گئے ہیں تاکہ بیجنگ کے بیانیے کو آگے بڑھایا جا سکے۔
امورِ خارجہ کے بارے میں امریکہ کے کونسل کی 10 ستمبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، بیجنگ کرونا وائرس کی وبا کے دوران تیزی سے ایک جارح، سازشی اور غلط معلومات میں تبدیل ہو گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "بیجنگ نہ صرف حقیقی معلومات کو توڑ مروڑ رہا اور غلط معلومات پھیلا رہا ہے ---یا جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلا رہا ہے تاکہ وائرس کے آغاز پر سے توجہ ہٹائی جا سکے، امریکہ کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جا سکے اور چین کو عالمی راہنما کے طور پر پیش کیا جا سکے"۔
چین اور روس کے صحافیوں کی طرف سے کرونا وائرس کے بارے میں پھیلائی گئی غلط معلومات کو سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں خبروں کے اہم ذرائع کی طرف سے دی جانے والی معلومات سے زیادہ سامعین مل گئے۔ یہ بات آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے 29 جون کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی۔
ٹوئٹر نے 12جون کو کہا کہ اس نے چینی حکومت کی غلط معلومات کی مہمات سے جڑے 170,000 اکاونٹس کو بند کیا ہے۔
تائیوان چین ہے اور مین لینڈ چین اس پر اپنی خودمختاری کا دعویٰ کرنے کا پوری طرح سے حق رکھتا ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، مجھے کوئی ایک ایسا ہمسایہ بتا دیں جسے بھارت سے مسئلہ نہ ہو۔ چین بھارت کے خلاف ایک مخالف وزن ہے۔
جوابتبصرے 2
مجھے ایسا محسوس ہورہاہے کہ پاکستان فارورڈ کے نام پر امریکہ کے لئے کام کیاجارہاہے
جوابتبصرے 2