تائی پے، تائیوان -- یوکرین پر روس کے بلا اشتعال حملے نے تائیوان کے خلاف چین کی جارحیت کو مزید تقویت بخشی ہے، اور تائی پے کو بیجنگ کے ساتھ عسکری تنازعے کے امکانات کے لیے بھرپور تیاری کرنے کی ترغیب دی ہے۔
روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
منگل (14 جون) کے روز تائی پے نے چین کی یہ کہنے پر مذمت کی کہ آبنائے تائیوان بین الاقوامی سمندر نہیں ہے، اور بیجنگ پر الزام لگایا کہ وہ اس پر اپنے علاقائی دعوے کے ساتھ علاقائی امن کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تنگ آبی گزرگاہ جو تائیوان اور چین کو الگ کرتی ہے ایک انتہائی حساس مقام ہے، بیجنگ اکثر غیر ملکی جنگی جہازوں کے گزرنے پر غصے میں ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔
امریکہ اور دیگر ممالک آبنائے کو بین الاقوامی سمندر کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں سے کوئی بھی گزر سکتا ہے۔
لیکن 13 جون کو، چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان، وینگ وینبن نے کہا کہ "چین کے پاس آبنائے تائیوان پر خودمختاری، خود مختار حقوق اور دائرہ اختیار ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "جب بعض ممالک تائیوان سے متعلق مسائل میں ہیرا پھیری کرنے اور چین کی خودمختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے آبنائے تائیوان کو 'بین الاقوامی پانی' کہتے ہیں تو یہ جھوٹا دعویٰ ہوتا ہے۔"
منگل کے روز تائی پے نے جوابی حملہ کیا اور بیجنگ کے بیان کو "غلط" اور "ناقابل قبول" قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی نے ایک بیان میں کہا، "چین... تائیوان کی خودمختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے اور علاقائی امن اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے کے لیے بین الاقوامی سمندری نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔"
"آبنائے تائیوان کو دانستہ طور پر اپنا خصوصی اقتصادی علاقہ قرار دینے کے لیے بین الاقوامی قوانین کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے" پر وزارت خارجہ نے بیجنگ کی مذمت کی۔
ایک بیان میں اس کا کہنا تھا، " چین کی تائیوان کا الحاق اپنے ساتھ کرنے کی کوشش واضح ہے۔"
سنہ 1949 سے تائیوان کی اپنی حکومت ہے مگر وہ چین کے حملے کے مسلسل خطرے میں جی رہا ہے۔ بیجنگ اس جزیرے کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس نے عزم کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ایک دن بزورِ طاقت اس پر قبضہ کر لیا جائے گا۔
آزادی نشانہ
یہ الزامات 10 جون کو چینی وزیرِ دفاع وی فینگے اور امریکی وزیرِ دفاع لوئیڈ آسٹن کے درمیان سنگا پور میں ہونے والی پہلی بالمشافہ بات چیت میں گرما گرمی کے بعد سامنے آئے تھے۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان وو چیان نے آسٹن کے ساتھ ملاقات کے دوران وی کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "اگر کوئی تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی جرأت کرتا ہے تو، چینی فوج یقینی طور پر جنگ شروع کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی چاہے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے"۔
وزارت کے مطابق، وی نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ بیجنگ "تائیوان کی آزادی کی کسی بھی سازش کو ناکام بنا دے گا اور مادر وطن کے اتحاد کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا"۔
وزارت نے کہا کہ انہوں نے "اس بات پر زور دیا کہ تائیوان چین کا تائیوان ہے... تائیوان کو چین پر قابو پانے کے لیے استعمال کرنا کبھی غالب نہیں آئے گا"۔
امریکی محکمۂ دفاع نے کہا کہ آسٹن نے وی کو بتایا کہ بیجنگ پر لازم ہے کہ "تائیوان کو غیر مستحکم کرنے والے مزید اقدامات سے باز رہے۔"
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور چین کت چوٹی کے سفارت کار یانگ جیشی نے 13 جون کو طویل بات چیت کی اور اسے دونوں فریقوں نے کئی دنوں کے سخت جملوں کے تبادلوں کے بعد لکسمبرگ میں "واضح" مذاکرات کا نام دیا۔
گفتگو کا لہجہ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں نرم تھا، مگر دونوں فریقوں نے اپنے اختلاف کے بنیادی نکات، خاص طور پر تائیوان پر کسی سمجھوتے کی طرف اشارہ نہیں کیا۔
چین روس محور
چین کے صدر شی جن پنگ نے طویل عرصے سے تائیوان پر چین کے "بحالیٔ شباب" کے ایک جزو کے طور پر دعویٰ کیا ہے، جیسا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دعویٰ ہے کہ یوکرین میں "خصوصی عسکری کارروائی" کا مقصد "مادر وطن" کو دوبارہ متحد کرنا ہے۔
یوکرین پر ماسکو کے حملے سے چند ہی ہفتے قبل، شی اور پیوٹن نے -- اپنی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی مغربی طرز کی جمہوریتوں والے ممالک کے مشترکہ خطرے سے گھبرا کر -- عالمی سیاسی اور عسکری نظم کے "نئے دور" میں ایک ساتھ رہنے کا عزم کیا تھا۔
"4 فروری کی ملاقات کے بعد جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا، دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی کوئی حد نہیں ہے ۔ تعاون کے کوئی 'ممنوعہ' علاقے نہیں ہیں۔"
لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات سٹیو سانگ نے اس ملاقات کے بارے میں کہا کہ شی اور پیوٹن نے "دنیا کو آمریت کے لیے محفوظ بنانے کے لیے زیادہ عزم کا اظہار کیا، خصوصاً سابق اشتراکی ممالک میں"۔
سانگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ شی کے لیے، یوکرین پر عوامی موقف اختیار کرنا "امریکہ کے زیرِ تسلط عالمی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے پیوٹن کے ساتھ ان کی مشترکہ دلچسپی" کا اظہار ہے۔
وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چانینگ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "تائیوان ہمیشہ سے چین کی سرزمین کا ناقابل تنسیخ حصہ رہا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی اور قانونی حقیقت ہے۔"
تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے کہا کہ "بیرونی قوتیں" "یوکرین کے حالات کو خراب کرنے اور تائیوان کے معاشرے کے حوصلے کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں"، اور حکومت پر زور دیا کہ وہ "علمی جنگ کے خلاف زیادہ چوکس رہے"۔
یوکرین سے سیکھے گئے اسباق
جیسا کہ یوکرین میں جنگ جاری ہے، اس نے تائیوان میں بہت سے لوگوں کے لیے ایک زیادہ طاقتور حملہ آور قوت کو سست کرنے کے لیے درکار حکمت عملیوں اور ہتھیاروں کے بارے میں ایک مکروہ سبق کا کام کیا ہے۔
تائیوان لڑاکا طیاروں اور آبدوزوں پر اربوں خرچ کرتا ہے، اور فوج ایک پیشہ ور قوت بنا رہی ہے، لیکن اسے انتہائی ہنر مند فوجیوں کی بھرتی، تربیت اور برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ بدل رہا ہو۔
تائی پے میں ایک کمپیوٹر انجینئر اضافی فوج کے 31 سالہ وو شیان-یون نے کہا کہ مارچ میں ہونے والی تربیت حالیہ برسوں میں ان جیسے سپاہیوں کی تربیت سے زیادہ طویل اور مشکل تھی۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً ہر روز ان کے کمانڈر جوانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ چین سے خطرہ بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، "یوکرین نے ہمیں دکھایا ہے کہ آپ کو پہلے دوسروں پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ اپنے دفاع کا عزم رکھتے ہیں؛ تبھی دوسرے مدد کو آئیں گے"۔
چین تقریباً روزانہ تائیوان کی طرف لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے، جس میں صرف پچھلے مہینے ایک دن میں 30 طیارے بھیجے گئے تھے۔
اے ایف پی کی مرتب کردہ ڈیٹا بیس کے مطابق، گزشتہ برس، تائیوان نے چینی جنگی طیاروں کی 969 دخل اندازیاں ریکارڈ کی تھی – جو سنہ 2020 میں کی گئی تقریباً 380 دخل اندازیوں سے دُگنی ہیں۔
24 مئی کو، چین اور روس نے یوکرین پر کریملن کے حملے کے بعد اپنی پہلی مشترکہ فوجی مشق کا انعقاد کیا تھا، جس میں شمال مشرقی ایشیا کے سمندروں پر بمبار طیارے بھیجے گئے تھے۔
اشتعال انگیز حملوں اور فوجی مشقوں نے تائیوان کے حکام اور بین الاقوامی مبصرین کو تناؤ کا شکار بنا دیا تھا۔
تائیوان کے سابق وزیرِ دفاع مائیکل سائی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، "ہم انتظار نہیں کر سکتے؛ ہم وقت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔"
چین کی پیپلز لبریشن آرمی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "روس کا یوکرین پر حملہ ایک لمحے میں ہوا -- کون جانتا ہے کہ پی ایل اے کب تائیوان پر حملہ کرنے کا انتخاب کر لے۔"