تجزیہ

پُرامن انتقالِ اقتدار امریکی جمہوریت کی لچک کو اجاگر کرتا ہے

از پاکستان فارورڈ

امریکی نیشنل گارڈ کے ارکان 17 جنوری کو واشنگٹن میں یو ایس کیپیٹل میں گشت کرتے ہوئے۔ [اینڈریو کابالیرو-رینولڈز/اے ایف پی]

امریکی نیشنل گارڈ کے ارکان 17 جنوری کو واشنگٹن میں یو ایس کیپیٹل میں گشت کرتے ہوئے۔ [اینڈریو کابالیرو-رینولڈز/اے ایف پی]

واشنگٹن -- مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں نزاعی ترین انتخابات میں سے ایک انتخاب کے بعد، 20 جنوری کو امریکی صدر جو بائیڈن کو پُرامن انتقالِ اقتدار امریکی جمہوری اداروں کی طاقت اور لچکداری کو اجاگر کرتا ہے۔

ہر چار یا آٹھ سال بعد، امریکی عوام ایک نیا صدر منتخب کرتے ہیں جو امریکی مسلح افواج کی کمان بھی کرتا ہے۔

ایک طویل عرصے سے امریکہ کے لیے یہ بات قابلِ فخر رہی ہے کہ حتیٰ کہ گہرے سیاسی اختلافات کے وقتوں میں بھی، موجودہ صدر نئے رہنماء کے انتخاب کو قبول کرتا ہے اور پُرامن طور پر عہدہ خالی کر دیتا ہے۔

یہ مثال سنہ 1800 میں جان ایڈمز نے قائم کی تھی، جب پہلی بار صدارت ایک جماعت سے دوسری جماعت کے ہاتھ میں گئی تھی، انہوں نے تھامس جیفرسن سے شکست کھانے کے بعد اقتدار چھوڑ دیا اور اس 200 سے زائد سالہ روایت کا آغاز کیا۔

20 جنوری 2017 کو لی گئی اس تصویر میں، واشنگٹن ڈی سی میں افتتاحی تقاریب کے دوران اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیشرو باراک اوبامہ اور رخصت ہو رہے نائب صدر، جو بائیڈن کے ساتھ محوِ گفتگو ہیں، جبکہ سینیٹر چک شُمر انہیں دیکھ رہے ہیں۔ [پال جے رچرڈز/اے ایف پی]

20 جنوری 2017 کو لی گئی اس تصویر میں، واشنگٹن ڈی سی میں افتتاحی تقاریب کے دوران اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیشرو باراک اوبامہ اور رخصت ہو رہے نائب صدر، جو بائیڈن کے ساتھ محوِ گفتگو ہیں، جبکہ سینیٹر چک شُمر انہیں دیکھ رہے ہیں۔ [پال جے رچرڈز/اے ایف پی]

امریکی اور سعودی افواج گزشتہ 17 دسمبر کو خلیج میں مشترکہ جنگی مشقیں کرتے ہوئے۔ [سینٹکام]

امریکی اور سعودی افواج گزشتہ 17 دسمبر کو خلیج میں مشترکہ جنگی مشقیں کرتے ہوئے۔ [سینٹکام]

اور یہی وجہ ہے کہ، نومبر میں بڑی تلخی سے لڑے گئے صدارتی انتخابات اور 20 جنوری کو یومِ افتتاح تک کے ہنگامہ خیز عرصے -- بشمول 6 جنوری کو یو ایس کیپیٹل پر پُرتشدد حملے -- کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 46 ویں صدر، بائیڈن کے لیے ایک طرف ہٹ جانے پر اتفاق کیا۔

اتحادیوں کے ساتھ عہد

ایک اور قابلِ فخر چیز امریکی فوج کی دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ جاری وابستگی رہی ہے، قطع نظر اس سے کہ صدر کون ہے۔

امریکی فوج کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارک اے ملی نے اس عہد کا اظہار کئی مواقع پر کیا ہے۔

دسمبر میں انہوں نے کہا تھا، "امریکی اقدار نے ہمیں اڑھائی صدیوں سے مضبوط بنایا ہے، اور ہم امریکی آئین کے ساتھ اپنی وفاداری سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہمارا ہدف اس عظیم طاقت کی رفتار کو برقرار رکھنا ہونا چاہیئے جو جنگِ عظیم دوم کے بعد سے موجود ہے، اور ان تمام کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیئے جو ہمیں للکار سکتے ہیں۔"

اکتوبر 2018 میں، امریکی محکمۂ دفاع (ڈی او ڈی) نے اپنی قومی دفاعی حکمتِ عملی کا خلاصہ کیا تھا، جس میں اپنے بنیادی اہداف میں سے ایک ہدف روس اور چین کو "موجودہ بین الاقوامی نظم کو غیر متوازن کرنے" سے روکنا درج کیا تھا۔

ملی نے کہا، "آمر بین الاقوامی نظام کی حدود کو آزما رہے ہیں۔ امریکہ کی طاقت ہمارا اتحادیوں اور شرکائے کار کا نیٹ ورک ہے جو ہم نے بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا میں درپیش کسی بھی مشکل سے نمٹ سکتا ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "ہم پر لازم ہے کہ طاقت کے ذریعے امن قائم رکھیں۔ یہ ایک خطرناک دنیا ہے، اور دوستوں کے ساتھ رہنا بہتر ہے۔"

مشترکہ دشمنوں کے خلاف متحد

اکتوبر میں، امریکی فوج نے ساتھی ممالک کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنے اور روس اور چین کے عالمی اثرورسوخ کے خلاف ان کی فوجوں کو منظم کرنے کی پہل کاری کا آغاز کیا تھا۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل میں تقریر کے دوران، گزشتہ 20 اکتوبر کو ایک سابق امریکہ وزیرِ دفاع، مارک ایسپر نے کہا، "چین اور روس بڑی تیزی کے ساتھ اپنی مسلح افواج کو جدید بنا رہے ہیں اور اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کو بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرنے، ریاستوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے اور طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ جنوبی چین کے سمندر میں چینی اشتعال انگیزیاں اور یوکرین کے ساتھ کریملن کی جنگ "دوسروں کی خودمختاری کو ختم کرنے اور ممالک اور اداروں کی لچکداری اور اتصال کو تباہ کرنے کی ننگی کوششوں کا اظہار" ہیں۔

ایسپر نے کہا، "امریکہ کا اتحادیوں اور شرکائے کار کا نیٹ ورک -- ہمیں مخالفین پر ایک غیر متناسب فائدہ پہنچاتا ہے جس کی وہ برابری نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے کہا، "روس اور چین کے کُل ملا کر بھی غالباً 10 سے کم اتحادی ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا غیرقانونی طرزِ عمل ممکنہ شراکت داروں کو ڈرا کر بھگا دے گا۔

ایسپر نے کہا کہ دریں اثناء، امریکہ کا "اتحادیوں اور شرکائے کار کا ایک وسیع نیٹ ورک" ہے، نیز ایسے تعلقات ہیں جن کی "جڑیں ہماری مشترکہ اقدار اور مفادات میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں۔"

یہ پہل کاری اتحادوں اور شراکت داریوں کے لیے ترقیاتی رہنمائی کہلاتی ہے۔

اس حکمتِ عملی میں اتحادیوں کو طاقتور بنانے کے لیے امریکی "ناگزیر" ہتھیاروں کے نظاموں کی برآمد اور روس اور چین کے مقابلے میں امریکی دفاعی صنعت کو بہتر بنانا شامل ہے۔

امریکی جمہوری نظام کو داغدار کرنے کی کوششیں

اس مہینے کے شروع میں امریکہ میں انتخابات سے متعلقہ پرتشدد واقعات کے بعد، روس، ایران اور چین کے حکام نے عوامی طور پر ایسے بیانات جاری کیے جن میں بدامنی پر ان کی خوشی کا اظہار ہوتا تھا اور خبروں کو اپنے اپنے ملک میں جبر کی جاری مہمات کا جواز پیش کرنے کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔

روسی حکام نے 6 جنوری کو یو ایس کیپیٹل میں ہونے والی ہلڑ بازی کو امریکی زوال کے ثبوت کے طور پر پیش کیا، جس میں روس کے پارلیمان کے ایوانِ بالا کی امورِ خارجہ کمیٹی کے چیئرمین، کونسٹینٹین کوساشیف نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جمہوریت "دونوں ٹانگوں سے لنگڑی ہے"۔

مگر کسی بھی قسم کی جمہوری روایات کے برعکس، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے "تاحیات صدر" بننے کے لیے اقتدار حاصل کیا تھا۔ نئی قانون سازی پیوٹن اور اس کے خاندان کو ان کی زندگیوں کے دوران کیے گئے کسی بھی جرم کے لیے استغاثے سے استثنیٰ فراہم کرتی ہے، اور تلاشیوں، گرفتاریوں یا تفتیشوں سے مبرا کرتی ہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ کیپیٹل پر ہونے والی افراتفری "سب سے بڑھ کر یہ ظاہر کرتی ہے کہ مغربی جمہوریت کتنی نازک اور حساس ہے"۔

تاہم، ایرانی جمہوریت صرف نام کی جمہوریت ہے۔

سرپرست کونسل، جو ایرانی انتخابات کی نگران ہے، باقاعدگی کے ساتھ عہدے کے خواہشمند امیدواروں کی پڑتال کرتی ہے۔ گزشتہ برس، اس نے صدارت کے کوئی 9،500 ممکنہ امیدواروں کو روکا، جو کہ صدارت کے لیے پُرامید 14،500 افراد کا لگ بھگ دو تہائی بنتا ہے۔

گزشتہ جنوری میں کونسل کے فیصلے کے بعد روحانی کا کہنا تھا، "جمہوریت اور قومی خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ دن ہے جب انتخابات ایک تکلف بن جائیں گے۔"

مزید برآں، گزشتہ فروری میں، ایران میں ایک پارلیمانی انتخاب میں سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد کم ترین ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا، جہاں 42.6 فیصد اہل ووٹروں نے اپنے ووٹ ڈالے، تہران میں، ٹرن آؤٹ 25 فیصد سے معمولی سا زیادہ تھا۔

دریں اثناء، چینی ریاستی ذرائع ابلاغ نے کیپیٹل کے بلوائیوں کو ہانگ کانگ کے احتجاجی مظاہرین کے ساتھ ملانے کی کوشش کی جنہوں نے جولائی 2019 میں، اپنے شہر کے قانون ساز کونسل کمپلیکس پر قبضہ کر لیا تھا۔

دونوں گروہوں کی وجوہات اور ارادے قطعاً مختلف ہیں۔

ہانگ کانگ کے احتجاجی مظاہرین قانون ساز کونسل میں مکمل جمہوریت کا مطالبہ کرنے اور ایک غیر مقبول مسودۂ قانون کو رکوانے کے لیے گھسے تھے جسے شہر کی غیر منتخب قیادت نظام میں زبردستی داخل کر رہی تھی۔

بیجنگ نے بدامنی پر کریک ڈاؤن کیا، بدامنی والے شہر میں سخت پہرے کا قانون نافذ کیا، درجنوں نقادوں کو گرفتار کیا اور اختلافی آوازوں کا گلا گھونٹا۔ ایسا کر کے، اس نے ہانگ کانگ کی شہری آزادیوں کو 50 برسوں کے لیے قائم رکھنے کے اپنے 1997 کے وعدے کو توڑا۔

جو لوگ یو ایس کیپیٹل میں گھسے تھے وہ ایک آزادانہ اور منصفانہ صدارتی انتخاب کے نتائج بدلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ملک بھر کے ججوں، جن میں سے بہت سوں کو ٹرمپ نے مقرر کیا تھا، نے نتائج کو تسلیم نہ کرنے والے 60 سے زائد غیر سنجیدہ مقدمات کو اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ملک بھر کے ججوں نے، جن میں سے متعدد ٹرمپ نے تعینات کیے، نتائج پر اعتراض کرنے والے 60 سے زائد مقدمات. خارج کر دیے، واقعی؟

جواب