حقوقِ انسانی

مشرقی افغانستان میں طالبان کی پیش رفت ژنجیانگ میں بیجنگ کے جوروستم سے جا ملی

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

17 جولائی کو ایک شخص افغان پاکستان سرحد پر افغانستان کی جانب طالبان کا پرچم اٹھائے کھڑا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

17 جولائی کو ایک شخص افغان پاکستان سرحد پر افغانستان کی جانب طالبان کا پرچم اٹھائے کھڑا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

بیجنگ – بیجنگ اپنے مغربی ہمسائے پر ایک قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے، کیوں کہ افغانستان میں طالبان کی پیشرفت سے خطے، اور بطورِ خاص، چین کے سنکیانگ خطے، کے عدم استحکام کا خطرہ ہے۔

حالیہ برسوں میں بیجنگ نے سنکیانگ کی مسلمان اکثریتی آبادی کو دبانے اور ان کی نگرانی کرنے کے مقصد سے ہیبتناک پالیسیوں کی جانب جھکاؤ کو منکشف کر دیا ہے، جن میں ایک ملین سے زائد یوگر اور دیگر ترکک مسلمانوں کو "سیاسی تعلیمی" کیمپوں، قبل از عدالتی کاروائی حراستی مراکز اور جیلوں سمیت 400 تنصیبات میں قید کیا جانا شامل ہے۔

سنکیانگ میں چینی حکام کی جانب سے ہونے والے متعدد جرائم بطورِ خاص دنیا بھر میں مسلمانوں اور یقیناً طالبان جیسے شدت پسند اسلام پسندوں پر گراں گزرتے ہیں۔ ان میں خطے میں 1,000 سے زائد آئمہ اور دینی شخصیات کی بے قاعدہ حراست ، تقریباً 16,000 مساجد کو منہدم کیا جانا ، اور مسلمان خواتین کے ساتھ منظم زیادتی شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تمام نیٹو اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد اگر افغانستان پر عدم استحکام چھا جاتا ہے، تو "قومی سلامتی" کے نام پر سنکیانگ میں چین کا کریک ڈاؤن شدید تر ہو جائے گا۔

4 جنوری کو لی گئی اس تصویر میں کاشغر، خطہ ژنجیانگ، چین میں کوہِ پامیر پر پیپلز لبریشن آرمی کے سپاہی تربیت حاصل کرتے دکھائے گئے ہیں۔ [اے ایف پی]

4 جنوری کو لی گئی اس تصویر میں کاشغر، خطہ ژنجیانگ، چین میں کوہِ پامیر پر پیپلز لبریشن آرمی کے سپاہی تربیت حاصل کرتے دکھائے گئے ہیں۔ [اے ایف پی]

4 جون، 2019 کو لی گئی اس تصویر میں کاشغر، سنکیانگ خطہ، چین کے جنوب میں ینگیسار میں ایک رہائشی احاطے میں خاردار تار کے پیچھے چینی پرچم دکھایا گیا ہے۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

4 جون، 2019 کو لی گئی اس تصویر میں کاشغر، سنکیانگ خطہ، چین کے جنوب میں ینگیسار میں ایک رہائشی احاطے میں خاردار تار کے پیچھے چینی پرچم دکھایا گیا ہے۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

اگرچہ 2017 سے اب تک خطے میں دہشتگردی کا کوئی نمایاں سانحہ رونما نہیں ہوا، تاہم بیجنگ نے ای ٹی آئی ایم اور ٹی آئی پی کے وجود کو سنکیانگ میں اپنے کریک ڈاؤن کی توجیح کے طور پر استعمال کیا۔

معلوم ہوتا ہے کہ تاحال سنکیانگ میں بیجنگ کے "سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے" کے مصداق سیکیورٹی اقدامات تمام یوگر اور دیگر ترکک ملسمانوں سے ممکنہ سیکیورٹی خدشات کے طور پر نمٹتے ہیں۔

درایں اثناء، طالبان چین کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملہ میں نمایاں طور پر غیرجانبدار رہے ہیں، اور میں چینی جرائم کے غیر متنازع شواہد سے لاعلم یا عمداً فراموش کر دینے والے معلوم ہوتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے 8 جولائی کو وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان کو سنکیانگ میں یوگر کی مشکلات کی فکر ہے اور وہ بیجنگ کے ساتھ سیاسی مزاکرات کے ذریعے اپنے مسلمان ساتھیوں کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔

سینیٹر مارکو ریبیو نے ایک بیان میں کہا، "سنکیانگ میں جبری مزدوری سے منفعت حاصل کرنے والی کسی بھی بین الاقوامی کمپنی اور بیجنگ کے لیے پیغام واضح ہے: اب بس"۔

امریکہ نے پہلے ہی سنکیانگ پر چین کے خلاف کاروائی کی ہے، اور وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے 6 جولائی کو واشنگٹن میں نظربندی کیمپوں سے بچ جانے والوں سے بات چیت کی۔

حکومتِ امریکہ نے 9 جولائی کو 14 چینی اساسی کمپنیوں پر پابندیوں کا اعلان کیا جو یوگر اور سنکیانگ میں دیگر نسلی اقلیتوں کی جانب چین کی پالیسیوں میں ملوث ہیں۔

22 جون کو 40 سے زائد ممالک نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کاؤنسل میں سنکیانگ میں چین کی کاروائیوں سے متعلق "شدید خدشات" اٹھائے۔

حالیہ ہفتوں میں شہریوں کے گھروں کو لوٹنے اور جلانے سمیت طالبان کا تشدد افغانستان کے تین وسط ایشیائی ہمسایوں—تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان – کی سرحدوں تک پہنچ گیا ہے اور تینوں اپنی افواج کو مستحکم کر رہے ہیں۔

چین کی بھی افغانستان کے ساتھ ایک مختصر 76 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو کہ بلندی پر واقع ہے اور کوئی سرحدی گزرگاہ نہیں ہے۔

لیکن یہ سرحد اس لیے باعثِ تشویش ہے کہ یہ ژنجیانگ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، اور بیجنگ کو خدشہ ہے کہ افغانستان اس حساس خطے سے یوگر علیحدگی پسندوں کے لیے جنگ مسلط کرنے کی سرزمین کے طور پر استعمال نہ ہو۔

مزید دسیوں لاکھوں نگرانی اور ضوابط کے سخت نظام کے تحت زندہ ہیں۔

امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک سے یوگر کے حقوق کے گروہوں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ – جبری اسقاطِ حمل سمیت — چین کی پالیسیاں نسل کشی کے مترادف ہیں۔

ابتدا میں حراستی کیمپوں کے وجود سے انکار کرنے کے بعد، اب حکومتِ چین انہیں "پیشہ ورانہ تربیتی مراکز" کے طور پر بیان کرتی ہے، جن کا مقصد دہشتگردی کا خاتمہ اور ملازمت کے مواقع بہتر بنانا ہے۔

’موروثی طور پر بے چین کن‘

چین بطورِ خاص اپنی سرحدوں پر طاقت کے خلا کو ناپسند کرتا ہے، اور افغانستان میں کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد استحکام کو برقرار رکھنا بیجنگ کی اولین ترجیح ہو گی۔

شنگھائی جامعہ برائے بین الاقوامی علوم میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک ماہر فان ہونگڈا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "چین کے لیے خدشہ اس امر سے نہیں کہ افغانستان میں کون برسرِ اقتدار آتا ہے، بلکہ خدشہ دائمی عدم استحکام سے ہے۔"

ان خدشات کی وجہ سے چین دنیا بھر میں روزافزوں عسکری طرزِ عمل کی پیروی کر رہا ہے جس نے ہمسایہ ممالک کو خدشات کا شکار بنا رکھا ہے ۔

بیجنگ میں ملحد سی سی پی رہنماؤں اور بنیاد پرست طالبان کے مابین خال ہی کوئی مشترکہ نظریاتی بنیاد ہے، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر مشترکہ مہم جوآنہ فطرت حساس اختلافات کی بیخ کنی کر دے گی۔

پاک چین محور کے مصنف اینڈریو سمال نے کہا، "چین طالبان سے نمٹ سکتا ہے۔۔۔ لیکن وہ تاحال طالبان کے مذہبی ایجنڈا اور تحریک کو موروثی طورپر بے چین کن محسوس کرتے ہیں۔"

"انہیں کبھی یقین نہیں ہو سکا کہ طالبان درحقیقت یوگر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے جیسے امور پر معاہدوں پر عملدرامد کرنے کے کس قدر خواہاں یا قابل ہیں۔"

یوگر عسکریت پسندوں کے ساتھ طالبان کے روابط دودہائیوں سے زائد پرانے ہیں۔

تحریکِ اسلامیٴ مشرقی ترکستان (ای ٹی آئی ایم) اور اس کی جانشین ترک اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) کے ساتھ طالبان کے روابط چین کے لیے بطورِ خاص تشویش ناک ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہمیں تفصیلات معلوم نہیں۔ لیکن ہمارے پاس تفصیلات ہوں تو ہم اپنے خدشات کا اظہار کریں گے۔ اگر [چین میں] مسلمانوں کے ساتھ کچھ مسائل ہیں تو ہم حکومتِ چین سے ضرور بات کریں گے۔"

ممکنہ طور پر طالبان کے عوامی طور پر مبہم ہونے کا تعلق بیجنگ کی سیاسی اور مالی معاونت کے لیے اس گروہ کی امّیدوں سے ہے۔

شاہین نے اے ایف پی کے ساتھ ایک الگ انٹرویو میں کہا، "اگر کوئی ملک ہماری کانوں کو مسخر کرنا چاہتا ہے تو ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم سرمایہ کاری کے لیے ایک اچھا موقع فراہم کریں گے۔"

چین کے خلاف کاروائی

طالبان کا نیم گرم اندازِ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب کہ امریکہ انسانیت کے خلاف جرائم پر بیجنگ کے خلاف کھڑا ہے۔

گزشتہ بدھ (14 جولائی) کو امریکی سینیٹ نے یوگر فورسڈ لیبر پریونشن ایکٹ پاس کیا اور دستخط ہو کر قانون بن جانے پر یہ ژنجیانگ سے مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کر دے گا۔

"ہم انسانیت کے خلاف سی سی پی کے جاری جرائم کو نظرانداز نہیں کر سکتے، اور ہم کارپوریشنز کو ان وحشیانہ بدسلوکیوں سے منافع کمانے کی کھلی چھٹی نہیں دیں گے۔"

واشنگٹن نے حال ہی میں ایک چینی کمپنی سے شمسی پینلز کے سامان کی درآمدات بند کر دیں اور مبینہ طور پر خطے میں جبری مزدوری استعمال کرنے والی چار دیگر پر تجارتی پابندیاں عائد کیں۔

8 جولائی کو یورپی یونیئن کے قانون سازوں نے اس بلاک کے اداروں اور رکن ریاستوں سے 2022 موسمِ سرما کی بیجنگ اولمپکس کو تب تک چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا، جب تک کہ چین "ہانگ کانگ، ژنجیانگ یوگر خطے، تبت، اندرونی منگولیا اور چین میں دیگر مقامات پر انسانی حقوق میں ایک قابلِ تصدیق بہتری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔"

اس بیان میں تشدد یا وحشیانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری اسقاطِ حمل، جنسی اور جنس پر مبنی تشدد، اور بچوں کی والدین سے جبری علیحدگی کی رپورٹس کا حوالہ دیا گیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500