بیجنگ -- سنکیانگ میں حکومت کی جانب سے تیار کردہ ایک نئی موسیقائی فلم چینی سینما گھروں کی زینت بنی ہے، جس میں نسلی اتصال کی رنگ برنگی دیہاتی کشش کو دکھایا گیا ہے -- جو "دوبارہ تعلیم" کیمپوں، بڑے پیمانے پر جاسوسی اور اس خوفناک بدسلوکی کی حقیقت سے کوسوں دور ہے جو اس خطے کا اصل خاصہ ہے۔
دس لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر ترک زبان بولنے والے مسلمان، بشمول نسلی قازقوں اور کرغیزوں کو سنکیانگ میں کیمپوں کے اندر محصور رکھا گیا ہے جہاں "نسلی کشی" ہو رہی ہے۔
لیکن سنکیانگ کے اندر کپاس کی صنعت میں غلامی اور جبری مشقت لینے کے واضح ثبوت پر عالمی مظاہرے ہو رہے ہیں، اور اویغور خواتین کی دانستہ عصمت دریاں، انہیں بانجھ بنانا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے کی تحقیقات پر عالمی طور پر اشتعال پیدا ہوا ہے۔
چینی وزیرِ خارجہ وینگ یی نے فروری میں کہا تھا کہ سنکیانگ میں نسلی اقلیتوں کے ساتھ ملک کا سلوک اس کی انسانی حقوق پر پیشرفت کی "تابندہ مثال" ہے۔
ہالی ووڈ سے متاثر
اشتعال میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی، چین نے بیانیہ تبدیل کرنے کے لیے ملک کے اندر اور باہر ایک تفصیلی عوامی تعلقات کا حملہ شروع کر دیا ہے۔
ریپ سونگ، تصویری نمائشیں اور اب موسیقائی فلم -- "گیتوں کے پر" -- خطے کو ثقافتی تبدیلی کی طرف لے جا رہے ہیں، جبکہ معروف شخصیات کی ایک بڑی تعداد سنکیانگ کی داغ دار ٹیکسٹائل کی صنعت کے دفاع کے لیے بظاہر متحرک نہیں ہے۔
بیجنگ تمام الزامات کو مسترد کرتا ہے اور اس نے اس کی بجائے سنکیانگ کو سماجی اتصال اور معاشی احیاء کی جنت کے طور پر ڈھال دیا ہے جس نے فیاضانہ سرکاری مداخلت کے صدقے برسوں کی پرتشدد انتہاپسندی سے منہ موڑ لیا ہے۔
فلم، جس کے اجراء میں مبینہ طور پر ایک سال کی تاخیر ہوئی ہے، کی توجہ تین مختلف نسلی پس منظروں سے تعلق رکھنے والے تین مردوں پر مرکوز ہے جو اچھا وقت آنے کے خواب دیکھتے ہیں جبکہ وہ وسیع خطے کے برف پوش پہاڑوں اور صحراؤں میں ساری ثقافتوں میں موسیقی کی آرزوئیں جمع کرتے ہیں۔
فلم کے بعد، ریاست کی طرف سے چلائے جانے والے گلوبل ٹائمز نے خبر دی کہ دیارِ غیر میں بلاک بسٹر جیسے کہ ہالی ووڈ کی "لا لا لینڈ" نے "چینی سٹوڈیوز کو متاثر کیا ہے" کہ وہ اپنی ملکی ہٹ فلمیں تیار کریں۔
نیز -- سنکیانگ کی نصف سے زائد آبادی کے مسلمان ہونے کے باوجود -- قابلِ ذکر طور پر اسلام کے حوالے اور مساجد اور برقعہ پوش خواتین بھی غائب ہیں۔
ایک منظر میں، ایک ممتاز کردار، ایک بالکل داڑھی منڈا ہوا یغور، اپنے ہاتھ میں شراب اٹھائے ہوئے ہے۔
کڑوی حقیقت کی پڑتال
چین کے اندر، یغور معاملے پر گفتگو کو دبا دیا گیا ہے۔
فروری میں، چین نے فوری طور پر کلب ہاؤس ایپ کو بند کر دیا تھا ، ایک آڈیو پلیٹ فارم جہاں غیر سنسر شدہ گفتگوئیں کچھ عرصے کے لیے ہوئی تھیں جن میں سنکیانگ بھی شامل تھا، جہاں یغور ہمہ تن گوش ہان چینی مہمانوں کو زندگی کے سادہ تجربات بتاتے تھے۔
چین میں "اصل" انٹرنیٹ کے مختصر سے عرصے کے لیے کھلنے نے سیاست اور معاشرے کے ممنوعات کی چیر پھاڑ کرنے کی ایک نادر جگہ فراہم کی تھی، آوازوں کی ایک تکثیریت جسے عام طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی جانب سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
30 سالہ ایلیکس سو، جو بیجنگ میں ٹیکنالوجی کے ایک نئے شروع ہونے والے جریدے کی مدیر ہیں، نے کہا کہ کلب ہاؤس پر ان کے مختصر سے عرصے میں، وہ خاص طور پر ایک ایسی گفتگو سے متاثر ہوئی ہیں جس میں یغور مسلمانوں نے سنکیانگ میں تفریق کا سامنا کرنے کی ذاتی کہانیاں بیان کی ہیں۔
ایک ٹیلی فون انٹرویو میں انہوں نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا، "یہ حقیقتاً اس قسم کی معلومات ہیں جن تک عام طور پر ملک میں ہماری رسائی نہیں ہوتی"۔
امریکہ کی مقامی مشاورتی کمپنی سائنوانسائیڈر کے لیری اونگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ بیجنگ "کو معلوم ہے کہ ہزار بار دوہرایا جانے والا جھوٹ سچ بن جاتا ہے"۔
دوسروں کے لیے، سنکیانگ کے موضوع پر تازہ ترین پراپیگنڈہ مہم کارگر نظر آتی ہے۔
بیجنگ میں "گیتوں کے پر" دیکھنے کے بعد، ایک فلم بین نے اے ایف پی کو بتایا، "میں سنکیانگ میں گیا ہوں، اور فلم بہت حقیقت پسندانہ ہے"۔
اپنا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے، اس نے کہا، "لوگ خوش، آزاد اور کھلے ہیں"۔
اویغوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے فوری طور پر فلم کے قیاسوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایک اویغور امریکی وکیل اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ ان واشنگٹن کے سینیئر فیلو، نورے ترکل نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا، "یہ مفروضہ کہ یغور گا سکتے اور رقص کر سکتے ہیں اس لیے کوئی نسل کشی نہیں ہو رہی -- یہ کارگر نہیں ہونے والا۔"
"نسل کشی کسی بھی خوبصورت جگہ پر ہو سکتی ہے۔"
چین کے 'بھیڑیئے جنگجو' کاٹتے ہیں
چینی "بھیڑیئے جنگجو" سفارتکار بین الاقوامی اور ملکی مسائل، بشمول سنکیانگ پر اپنے شوروغل اور جواب میں زیادہ سے زیادہ جارح ہو گئے ہیں، ٹوئٹر - چین میں پابندی کی نظر ایک نیٹ ورک - پر دوسروں کی بے عزتی کرتے ہیں، نقادوں کو داغدار کرتے ہیں اور سازشی نظریات بتاتے ہیں۔
اصطلاح "وولف واریئر ڈپلومیسی" 2019 میں اس وقت عام ہو گئی، جب چینی ایلچیوں - خاص طور پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان - نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ملک کا سخت انداز میں دفاع کو اپنایا -
یہ عُرفی نام ریمبو جیسی چینی سپیشل فورسز فوجیوں کے متعلق ایک فلم سے اخذ کردہ ہے۔
ایلچیوں کی حالیہ تیز رفتاری بیجنگ کے سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر دوبارہ شروع ہونے والے عالمی دباؤ کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔
مارچ کے آخر میں، جب یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ نے سنکیانگ کے معاملے پر پابندیاں عائد کیں تو چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چون ینگ یہاں تک کہہ گئیں کہ امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی نے چین کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سنکیانگ پر شوروغل کرنے میں مدد کی ہے۔
منگل (6 اپریل) کے روز ترکی نے اس وقت چینی سفیر کو طلب کیا تھا جب ان کے دفتر نے مسلمانوں کے خلاف بیجنگ کی کارروائیوں پر تنقید کرنے پر چوٹی کے دو ترک سیاستدانوں کی سوشل میڈیا پر مذمت کی تھی۔
اسی روز، ایک چینی عدالت نے سنکیانگ میں دو یغور سابق حکومتی اہلکاروں کو "علیحدگی پسند سرگرمیوں" میں ملوث ہونے پر سزائے موت دی تھی۔
اس دھکے نے پاپ ثقافت کے اثر کو بھی قبول کیا ہے، مارچ میں جاری کردہ ایک ریپ کے ساتھ جو "مغربی آبادکاروں" کی جانب سے خطے میں کپاس کے متعلق "جھوٹ" پر ملامت کرتا ہے، جبکہ سرکاری نشریاتی ادارہ سی جی ٹی این اس بدامنی پر ایک دستاویزی فلم جاری کرنے کے لیے تیار ہے جس نے بیجنگ کو کریک ڈاؤن کرنے پر مجبور کیا تھا۔