سلامتی

عالمی اتحاد کی افغانستان سے واپسی کے ساتھ پاکستان کی طرف سے تعاون میں اضافہ

ضیاء الرحمان

پاکستانی پولیس 29 اپریل کو سیکورٹی کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان، اتحادی افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ [ضیاء الرحمان/ پاکستان فارورڈ]

پاکستانی پولیس 29 اپریل کو سیکورٹی کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان، اتحادی افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ [ضیاء الرحمان/ پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان، اتحادی افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والے سیکورٹی کے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تنازعہ کا ایک دیرپا سیاسی حل تلاش کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

نیٹو اور امریکی فورسز، گزشتہ ہفتہ (یکم مئی) کو افغانستان سے باضابطہ طور پر واپس چلی گئیں تھیں اور انہوں نے اس عمل کو 11ستمبر تک مکمل کرنے کا عہد کیا ہے۔

واپس جانے کے عمل کی مدد اور طالبان، القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ (داعش) جیسے دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، امریکی فوج مشرقِ وسطی میں اضافی فورسز اور وسائل بھیج رہی ہے ۔

انسدادِ دہشت گردی کے ایک طویل المعیاد اقدام کے طور پر، پینٹاگون کے حکام، افغانستان کے ساتھ یا اس کے قریب سرحد رکھنے والے ممالک میں وسائل کی جگہ تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں مگر انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ ایسا کہاں پر کیا جائے گا۔

12 مارچ کی ایک تصویر میں، پاکستان کی کرم ڈسٹرکٹ میں، پاکستان-افغانستان کی سرحد پر حال ہی میں لگائی جانے والی باڑ پر پاکستان اور افغانستان کے جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان/ پاکستان فارورڈ]

12 مارچ کی ایک تصویر میں، پاکستان کی کرم ڈسٹرکٹ میں، پاکستان-افغانستان کی سرحد پر حال ہی میں لگائی جانے والی باڑ پر پاکستان اور افغانستان کے جھنڈے لہراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان/ پاکستان فارورڈ]

طورخم بارڈر کراسنگ کے قریب، 19 مارچ کو افغانستان جانے والے ٹرک، پاکستان کی خیبر ڈسٹرکٹ میں حکام کی طرف سے کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان/ پاکستان فارورڈ]

طورخم بارڈر کراسنگ کے قریب، 19 مارچ کو افغانستان جانے والے ٹرک، پاکستان کی خیبر ڈسٹرکٹ میں حکام کی طرف سے کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان/ پاکستان فارورڈ]

وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے گزشتہ ماہ اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "پاکستان، افغان فریقین کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہوئے، افواج کو ذمہ درانہ طور پر واپس لے جانے کے اصول کی مکمل حمایت کرتا ہے"۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ افغان راہنماؤں پر دباؤ ڈالنا جاری رکھے گا کہ وہ افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے لیے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان، افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام حاصل کرنے کی کوششوں میں، بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا"۔

انسداد دہشت گردی میں حلیف

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان، امریکہ-طالبان مذاکرات اور افغانستان سے امریکی افواج کے متوقع طور پر رخصت ہو جانے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ سیکورٹی کے کسی بھی قسم کے ممکنہ خطرات سے نپٹنے کے لیے تیار ہے۔

تجزیہ نگاروں نے کامیاب مہمات کو، جیسے کہ آپریشن ضرب عضب، جسے 2014 میں شروع کیا گیا تھا، کسی زمانے میں پاکستان میں عسکریت پسندوں کے بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں کے خاتمہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ان مہمات کے دوران، سیکورٹی فورسز نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ کے بہت سے عسکریت پسندوں کو ہلاک یا گرفتار کیا تھا۔

تاہم، بہت سے شورش پسند، خصوصی طور پر راہنما، بھاگ کر ہمسایہ ملک افغانستان کے خوست اور کنڑ صوبوں میں چلے گئے تھے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انٹیلیجنس کے ایک سینئر اہلکار، جنہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں، کہا کہ "اندرونی طور پر، پاکستان نے دہشت گرد گروہوں کے لیے دہشت گردانہ حملے کرنا مشکل بنا دیا ہے"۔

اہلکار نے کہا کہ "بیرونی طور پر، پاکستان نے مستقبل کی تیاری کی، خصوصی طور پر اتحاد کے واپس چلے جانے کے بعد، جس میں افغانستان سے کام کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے"۔

پاکستان میں 2020 میں تین اور 2019 میں 4 دہشت گردانہ حملے ریکارڈ کیے گئے جو کہ 2018 میں ریکارڈ کیے گئے 19حملوں سے کم تھے۔ یہ بات پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) نے جنوری میں شائع ہونے والی اپنی سالانہ سیکورٹی رپورٹ میں بتائی تھی۔

اہلکار نے کہا کہ حالیہ سالوں میں، پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلیجنس کو سانجھا کرنے کا نتیجہ، ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے بہت سے کمانڈروں کی افغانستان میں ہلاکت کی صورت میں نکلا اور اس نے پاکستان کو اپنی سیکورٹی کی صورتِ حال بہتر بنانے میں بہت مدد فراہم کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ انسدادِ دہشت گردی میں قریبی حلیف رہیں گے ۔

تجزیہ نگار نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کی سرحد کے ساتھ 2,600 کلومیٹر طویل باڑ تعمیر کرنا بھی ایسی پہلکاری ہے جس نے سرحد کی دونوں اطراف میں سیکورٹی کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔

وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے 11 اپریل کو کہا کہ باڑ 90 فیصد مکمل ہو چکی ہے اور جون میں اس کی تکمیل متوقع ہے۔

کرم ڈسٹرکٹ میں خارلاچی بارڈر کراسنگ پر تعینات ایک افسر، اختر جان نے کہا کہ "افغانستان کے ساتھ سرحد کو سیل کرنا پاکستان کی طرف سے، صرف باضابطہ کراسنگ پوائنٹس پر سے سرحد پار کرنے کی اجازت دینے کی پاکستانی کوشش کا حصہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ نگرانی اور سیکورٹی کو بہتر بنانے اور عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد پار کیے جانے والے حملوں کو روکنے کے لیے، پاکستانی فوج اور دیگر سرحدی فورسز نے، سرحد پر باڑ لگانے کے علاوہ، مل کر نئے قلعے اور سرحدی چوکیاں قائم کی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "باڑ لگانے کے بعد، سرحد پار حملوں میں قابلِ قدر کمی آئی ہے

افغانستان میں امن کو یقینی بنانا

پاکستان، افغانستان میں امن کو یقینی بنانے کے لیے بھی ایک تعمیری کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان، امریکہ، روس اور چین سے تعلق رکھنے والے حکام نے، گزشتہ ہفتے دوحہ میں جمعہ (30 اپریل) کو افغانستان میں پُر امن تصفیہ کے لیے توسیعی "سہ فریقی کانفرنس" میں شرکت کی۔

گروپ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق، سہ فریقی کانفرنس میں "بین افغان مزاکرت کی مدد کرنے کے طریقوں اور فریقین کو مذاکرات سے تصفیہ تک پہنچنے میں مدد کرنے اور ایک مستقل اور جامع جنگ بندی" پر بات چیت ہوئی"۔

بیان میں کہا گیا کہ چاروں ملکوں کے حکام نے افغان حکام اور طالبان کے راہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے اور طالبان پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے اپنے وعدے کو قائم رکھیں کہ "دہشت گرد گروہ اور افراد، افغانستان کی زمین کو استعمال کرتے ہوئے، کسی دوسرے ملک کی سیکورٹی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے"۔

اس میں کہا گیا کہ طالبان کو القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی میزبانی نہیں کرنی چاہیے اور انہیں بھرتی، تربیت اور چندہ جمع کرنے سے روکنا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ فریقین "ایک پائیدار اور صرف سیاسی حل کی بھرپور وکالت کرتے ہیں جس کا نتیجہ ایک آزاد، خودمختار، متحد، پرامن، جمہوری، غیر جانب دار اور خود کفیل افغانستان کی صورت میں نکلے گا"۔

سہ فریقی کانفرنس سے پہلے، امریکہ کے ڈیفنس سیکریٹری لائیڈ جے آسٹن III نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 28 اپریل کو ٹیلی فون کیا تاکہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی، علاقائی استحکام اور سیکورٹی کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔

اس فون کال کے دوران، آسٹن نے "امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات" کی اہمیت کی ایک بار پھر تصدیق کی اور "افغانستان کے امن کے مذاکرات کے لیے پاکستان کی مدد پر اظہارِ تشکر" کیا۔ یہ بات امریکہ کے شعبہ دفاع نے ایک بیان میں بتائی۔

علاوہ ازیں، پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جرمنی کے ہم منصب ہیکو ماس کے ساتھ اپریل میں دو بار بات چیت کی تاکہ دوسرے امور کے علاوہ، افغانستان کی صورتِ حال کے بارے میں تبادلہِ خیال کیا جا سکے۔

اسلام آباد میں 29 اپریل کو ہونے والی ایک میٹنگ میں قریشی نے "ایک ذمہ دارانہ واپسی اور افغان جماعتوں کی طرف سے، مذاکرات کردہ سیاسی تصفیہ کی طرف ایک مستحکم پیش رفت کی اہمیت" بیان کی۔ یہ بات قریشی کی وزارت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کیں کہی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ قریشی "سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن سے دوسرے اہم فوائد بھی حاصل ہوں کے جن میں تجارت میں اضافہ اور علاقائی رابطے" شامل ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500