سلامتی

چھ برس بیت گئے، تجزیہ کار دہشت گردی میں کمی کا سہرا آپریشن ضربِ عضب کے سر باندھتے ہیں

از ضیاء الرحمان

پاکستانی فوج کا ایک سپاہی 27 جنوری 2019 کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر، غلام خان، شمالی وزیرستان میں ایک سرحدی ٹرمینل کے قریب پہرہ دیتے ہوئے۔ [فاروق نعیم / اے ایف پی]

پاکستانی فوج کا ایک سپاہی 27 جنوری 2019 کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر، غلام خان، شمالی وزیرستان میں ایک سرحدی ٹرمینل کے قریب پہرہ دیتے ہوئے۔ [فاروق نعیم / اے ایف پی]

اسلام آباد -- دفاعی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں مصروفِ عمل عسکری گروہوں کے خلاف چھ برس قبل شروع کیے گئے فوجی آپریشن ضربِ عضب نے پاکستان میںدہشت گردی کم کرنےمیں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

سویلین حکومت کی حمایت، جس میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے گروہوں کا بھی حصہ تھا، افواجِ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں مقامی اور کثیر قومی عسکری گروہوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے مقصد سے ایک بھرپور حملہ شروع کیا تھا۔

آپریشن ضربِ عضب، جو اندازاً ایک "تیز حملہ" کہلاتا ہے، جون 2014 میں کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک جان لیوا حملے کے تناظر میں شروع ہوا تھا۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور تحریکِ اسلامی ازبکستان (آئی ایم یو) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں 28 افراد شہید ہوئے تھے۔

نیم عسکری رینجرز کے جوان 2 جولائی کو کراچی میں ایک پڑتالی مقام پر تعینات ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

نیم عسکری رینجرز کے جوان 2 جولائی کو کراچی میں ایک پڑتالی مقام پر تعینات ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

جولائی 2014 کی ایک فائل فوٹو میں کراچی کے مکینوں اور سیاسی گروہوں کے آپریشن ضربِ عضب کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک ریلی کو دکھایا گیا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

جولائی 2014 کی ایک فائل فوٹو میں کراچی کے مکینوں اور سیاسی گروہوں کے آپریشن ضربِ عضب کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک ریلی کو دکھایا گیا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کوئی 30،000 فوجی، جنہیں فضائیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔

ایک اعلیٰ خفیہ اہلکار جنہوں نے آپریشن میں حصہ لیا تھا، نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "آپریشن ضربِ عضب نے اپنے پہلے دو برسوں میں اپنے پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور القاعدہ اور اس سے ملحقہ گروہوں، جن میں غیر ملکی اور مقامی دونوں شامل تھے، خصوصاً آئی ایم یو، اسلامک جہاد یونین (آئی جے یو)، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں اور حقانی نیٹ ورک کے نیٹ ورکس کے تار و پود بکھیرنے کے اہداف حاصل کر لیے تھے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ہونے والے آپریشن، بشمول آپریشن راہِ حق (2007)، آپریشن شیر دل (اگست 2008)، آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم (اپریل 2009)، آپریشن راہِ راست (مئی 2019)، آپریشن راہِ نجات (جون 2009) اور آپریشن بریخنہ (نومبر 2009)، اپنی حصولیابیوں کے باوجود مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کے ایک افسر، راجہ عمر خطاب نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کی جو ملک بھر میں دہشت گرد تنظیمون کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں مصروف تھے۔

خطاب نے کہا، "ٹی ٹی پی کے دہشت گرد، شمالی وزیرستان میں اپنی پناہ گاہیں استعمال کرتے ہوئے، ملک بھر میں اپنے نیٹ ورک چلا رہے تھے، مگر آپریشن نے۔۔۔ ان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو ہلا کر رکھ دیا۔"

ان کا کہنا تھا کہ چھ برس بعد، "دہشت گردی میں نمایاں کمی بنیادی طور پر آپریشن کی کامیابی کے ساتھ منسلک ہے۔"

آپریشن ردالفساداسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (پپس) کے ڈائریکٹر، محمد عامر رانا نے کہا کہ اڑھائی برس بعد،، جو مخبری کی بنیاد پر نشانہ بنا کر کی جانے والی کارروائیوں والا آپریشن تھا، آپریشن ضربِ عضب میں سمیٹی گئی کامیابیوں کو مجتمع کرنے کے لیے فروری 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آپریشن ضربِ عضب کے شروع ہونے کے بعد دہشت گرد حملوں اور اموات کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی۔

دہشت گردی میں کمی

پپس کی جانب سے ایک سالانہ دفاعی رپورٹ کے مطابق، سنہ 2014 میں پاکستان میں عسکریت پسندوں اور پرتشدد فرقہ وارانہ گروہوں کی جانب سے کُل 1،206 دہشت گرد حملے کیے گئے۔ کم از کم 1،723 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں جبکہ دیگر 3،143 زخمی ہوئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2016 میں حملوں کی تعداد کم ہو کر 441 ہو گئی، جن میں 908 اموات ہوئیں اور 1،627 زخمی ہوئے۔

سنہ 2019 میں، ملک بھر میں دہشت گرد حملے مزید کم ہو کر 229 ہو گئے، جن میں 357 اموات ہوئیں اور 729 زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق، آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے، بہت سے عسکریت پسند یا تو گرفتار ہو گئے یا ہلاک۔ تاہم، بہت سے دہشت گرد، خصوصاً ان کے قائدین، ہمسایہ افغان صوبوں خوست اور کنڑ میں فرار ہو گئے۔

شمالی وزیرستان کے باسیوں کے لیے، اس پیشرفت کا مطلب تھا کہ انہیں عسکریت پسندوں کی جانب سے متواتر دھمکیوں کا مزید سامنا نہیں تھا۔

ماضی میں، دہشت گرد تنظیموں کے عسکریت پسند شمالی وزیرستان میں میرانشاہ بازار میں ٹی ٹی پی کے دفاتر کے فون تاجروں، بااثر شخصیات اور ان کے خاندانوں کو دھمکانے کے لیے استعمال کرتے تھے اگر وہ بھتہ دینے میں ناکام رہتے تھے۔

کراچی کے مقامی ایک ٹرانسپورٹر اکمل خان، جنہوں نے سنہ 2012 میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنے بیٹے کو اغواء کیے جانے کے بعد 1 ملین روپے (6،000 ڈالر) تاوان ادا کیا تھا، نے کہا، "چند معاملات میں، تنظیم نے انہیں میرانشاہ میں اپنی 'عدالت' میں حاضر ہونے کے لیے بھی طلب کیا تھا۔"

خان نے کہا، "جب جون 2014 میں فوج نے شمالی وزیرستان میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب شروع کیا، تو تاجروں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500