سلامتی

فوجی آپریشنوں نے فاٹا اور کے پی کو قبائلی عمائدین کے لیے محفوظ تر بنا دیا ہے

از جاوید محمود

سیاسی انتظامیہ کے اہلکار ساز محمد خان 25 جولائی 2016 کو باجوڑ ایجنسی کے علاقے سالارزئی میں ایک قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے۔ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے والے فوجی آپریشنوں نے ان عمائدین کے لیے قبائلی علاقوں کو محفوظ تر بنا دیا ہے جو زبانی طور پر طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ [حنیف اللہ]

سیاسی انتظامیہ کے اہلکار ساز محمد خان 25 جولائی 2016 کو باجوڑ ایجنسی کے علاقے سالارزئی میں ایک قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے۔ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے والے فوجی آپریشنوں نے ان عمائدین کے لیے قبائلی علاقوں کو محفوظ تر بنا دیا ہے جو زبانی طور پر طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ [حنیف اللہ]

اسلام آباد -- وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں قبائلی عمائدین کو وہ تحفظ حاصل ہو گیا ہے جس سے وہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے آشنا نہیں تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج کے انسدادِ عسکریت پسندی آپریشنوں میں بلاتعطل پیش رفت نے دہشت گردوں کی جانب سے قبائلی عمائدین کے قتل کے ذریعے قبائلی معاشرے کو ہلاک کرنے کی طویل عرصے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔

ایک سینیٹر اور سابق انٹیلیجنس اہلکار، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فوجی آپریشنوں نے قبائلی ایجنسیوں میں امن بحال کر دیا ہے۔"

ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل کے مطابق، امن کی بحالی سے قبل، سنہ 2005 سے 2016 تک، عسکریت پسندوں اور مسلح افراد نے 149 قبائلی عمائدین کو قتل کیا، جس میں زیادہ تر فاٹا اور کے پی کے قبائلی عمائدین تھے۔

سنہ 2015 کے بعد فاٹا یا کے پی میں ایک بھی قبائلی عمائد دہشت گرد حملوں یا ٹارگٹ کلنگز میں جاں بحق نہیں ہوا۔ سنہ 2016 میں، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو قبائلی عمائدین کو ہلاک کیا گیا۔

دفاعی کوششوں کے ثمرات

فاٹا کے سابق دفاعی مشیر، بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے وضاحت کی کہ طالبان نے سنہ 2005 میں قبائلی عمائدین کو اس وقت نشانہ بنانا شروع کیا جب عمائدین نے حکومت، فوج اور خفیہ اداروں کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سنہ 2004 کے اختتام پر، قبائلی عمائدین نے سیاسی انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کیے [جس سے] قبائلی علاقوں میں طالبان کے ارکان کو گرفتار کرنے میں مدد ملی۔"

انہوں نے کہا کہ معاہدوں کا مقصد خطے میں طالبان کی موجودگی اور طاقت کی حوصلہ شکنی کرنا تھا، جس کو ماضی میں قبائلی برادری برداشت کرتی آئی تھی۔ "اس سے عسکریت پسند ناراض ہو گئے اور انہوں نے عمائدین کو قتل کرنا شروع کر دیا۔"

شاہ اس کا کریڈٹ فوجی آپریشنوں -- سنہ 2009 میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہِ نجات کے ساتھ آغاز کرتے ہوئے -- کو دیتے ہیں کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کی کثرت سے دہشت گرد حملے کرنے کی طاقت اور صلاحیت کو ختم کیا۔

انہوں نے کہا، "جون 2014 میں، فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا اور آخر کار طالبان کے نیٹ ورکس، طاقت اور بم بنانے کے یونٹوں کو ختم کر دیا، جس سے فاٹا، کے پی اور ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔"

عسکریت پسندوں کی طاقت کا زوال

مبصرین کا کہنا ہے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے برسوں کی انتھک محنت نے قبائلی علاقوں اور کے پی کو عمائدین کے لیے محفوظ تر بنا دیا ہے۔

جاری و ساری فوجی آپریشنز -- جیسے ضربِ عضب، ردالفساد (جو فروری 2017 میں شروع ہو) -- دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جماعت الاحرار، القاعدہ اور ان سے الحاق شدہ عسکری گروہوں سے ترلق رکھنے والے ہزاروں دہشت گرد عناصر کو ہلاک کرنے اور گرفتار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

برسوں کے فساد کی وجہ سے ہونے والے نقصان اور حالیہ سیاسی اصلاحات کے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، قاضی نے کہا، تاہم قبائلی معاشرہ جو دہشت گردی کی یورش سے قبل موجود تھا اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا اگرچہ فوج نے ٹی ٹی پی کو شکست دے دی ہے اور قبائلی علاقوں میں امن بحال کر دیا ہے، جس سے قبائلی عمائدین کی واپسی کا راستہ کھلا ہے، عمائدین کے پاس اس غیرمتنازعہ اختیار کی کمی ہے جو انہیں سنہ 2001 میں دہشت گردی شروع ہونے سے پہلے حاصل تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے ماضی کا سایہ بن چکی ہے، جو خیبر اور اورکزئی ایجنسیوں کے دور دراز علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر مصروفِ عمل ہے۔

قاضی نے کہا، "وہ اب مزید حملے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اب ٹی ٹی پی کے افراد دو سے چار افراد گروہوں میں کام کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تر خودکش بمبار ہوتے ہیں جو سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور کبھی کبھار دھماکہ کر دیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری گروہوں کی استعداد ختم ہو جانے کی وجہ سے، عسکری اور سویلین ادارے اسکولوں، ہسپتالوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو میں مصروف ہیں۔

قاضی نے کہا کہ تاہم، فاٹا میں زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات میں لازمی طور پر فاٹا کو ہمسایہ کے پی میں ضم کرتے ہوئے مرکزی سیاسی دھارے میں لانا شامل ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت پہلے ہی فاٹا کے مکینوں کے چند بڑے مطالبات مان چکی ہے، جیسے کہ نوآبادیاتی زمانے کے پولیٹیکل ایجنٹوں (صدر کی جانب سے مقرر کردہ) کو تبدیل کرنا اور لیویز فورس کو کمشنر اور پولیس کے ساتھ تبدیل کرنا، جس کہ باقی ماندہ پاکستان میں دیکھا گیا ہے۔

جدوجہد ختم نہیں ہوئی

اسلام آباد کے مقامی تھنک ٹینک ادارہ برائے مطالعاتِ تنازعہ و دفاع (پی آئی سی ایس ایس) کے چیئرمین اکرم زکی نے کہا کہ فاٹا اور کے پی میں امن و امان بلاشبہ بہتر ہوئے ہیں، لیکن بہت سارا کام باقی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فوجی آپریشنوں، خصوصاً آپریشن ضربِ عضب، نے فاٹا، کے پی اور دیگر علاقوں سے عسکریت پسندوں کے مضبوط نیٹ ورکس کو تباہ کر دیا ہے، جس سے لوگوں، بشمول قبائلی عمائدین کی حفاظت بہتر ہوئی ہے۔"

تاہم انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند جو ہلاک یا گرفتار نہیں ہوئے وہ افغانستان یا پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ آباد ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "عسکریت پسند مرغیاں اور بطخیں نہیں ہیں جو باآسانی فوجی آپریشنوں سے ختم ہو جائیں اور وہ مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔"

حکومت اور فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کو مقصد آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں کے ثمرات کو سمیٹنا اور ان عسکریت پسندوں کو کچلنا ہے جو پہلے حملوں میں فرار ہو گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500