دہشتگردی

پاکستان میں 2019 کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 13 فیصد کمی، سیکورٹی آپریشن جاری

ضیاء الرحمان

پیراملٹری رینجرز گزشتہ مئی میں کراچی میں اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ سیکورٹی کی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2019 میں پاکستان بھر میں 229 دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن میں چار خودکش دھماکے بھی شامل تھے جو کہ 2018 سے تقریبا 13 فیصد کمی ہے۔ [ضیاء الرحمان]

پیراملٹری رینجرز گزشتہ مئی میں کراچی میں اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ سیکورٹی کی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2019 میں پاکستان بھر میں 229 دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن میں چار خودکش دھماکے بھی شامل تھے جو کہ 2018 سے تقریبا 13 فیصد کمی ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- پاکستان میں 2019 میں دہشت گردانہ واقعات کی تعداد اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے اور سیکورٹی فورسز نے دہشت گرد گروہوں کو، جس میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی خراسان شاخ (داعش -کے) اور تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہے، جڑ سے اکھاڑنا جاری رکھا ہوا ہے۔

اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی طرف سے جاری ہونے والی سیکورٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال پاکستان بھر میں دہشت گردی کے 229 حملے ہوئے، جن میں چار خودکش دھماکے بھی شامل تھے۔ یہ اعداد و شمار 2018 سے تقریبا 13 فیصد کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مختلف عسکریت پسندوں، شورش پسندوں اور متشدد فرقہ ورانہ گروہوں کی طرف سے 2019 میں کیے جانے والے حملوں میں، 357 افراد جان گنوا بیٹھے جو کہ ایک سال پہلے سے تقریبا 40 فیصد کمی ہے۔ دیگر 729 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ داعش-کے اور ٹی ٹی پی نے اپنے سہولت کاروں اور ذیلی گروہوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں دیگر متشدد کاروائیاں بھی کی ہیں مگر 2019 میں ان کی توجہ زیادہ تر خیبرپختونخواہ اور بلوچستان پر رہی۔

پیراملٹری رینجرز گزشتہ مئی میں کراچی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

پیراملٹری رینجرز گزشتہ مئی میں کراچی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

عسکریت پسند ہلاک، گرفتار

پی آئی پی ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جو کہ ایک کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروہ ہے، 2019 میں پاکستان میں عدم استحکام کے بڑے کرداروں کے طور پر ابھرے ہیں۔ تاہم، داعش- کے کی سرگرمیوں میں قابلِ قدر کمی آئی ہے۔

پی آئی پی ایس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ "2018 میں، داعش-کے نے بلوچستان میں بھرپور موجودگی ظاہر کی ہے اور یہ صوبہ میں چار بڑے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث پائی گئی ہے۔ تاہم، 2019 میں یہ اس رفتار کو جاری رکھنے میں ناکام رہی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکری اور سیکورٹی کی مہمات اور اس کے ساتھ عسکریت پسندوں سے ہونے والی دوسری جنگوں اور مقابلوں میں 113 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ 2018 میں ایسی ہی مہمات میں اس کے مقابلے میں 105 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔

انہوں نے 231 مبینہ دہشت گردوں اور کالعدم عسکری گروہوں کے ارکان کو ملک بھر میں انجام دی جانے والی 99 مہمات کے دوران گرفتار کیا ہے۔

پی آئی پی ایس نے کہا کہ 2009 کے بعد سے، ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں سوائے 2013 کے، بتدریج کمی آئی ہے جب فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

پاکستان نے ملک میں امن کی بحالی کے لیے، 2014 کے بعد سے، ملک میں کئی مہمات کا آغاز کیا تاکہ عسکریت پسند گروہوں کے نیٹ ورکس -- مقامی اور بین الاقوامی دونوں-- کو توڑا جا سکے۔

رانا نے کہا کہ "سیکورٹی فورسز اور پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ جات (سی ٹی ڈی ایس) کی طرف سے، مسلسل جاری عسکریت پسند مخالف مہمات اور اس کے ساتھ ہی قومی ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت اٹھائے جانے والے انسدادِ دہشت گردی کے کچھ اقدامات نے بظاہر 2013 کے بعد سے جاری اس رجحان میں مدد کی ہے جو کہ 2019 میں بھی جاری رہا ہے"۔

این اے پی، انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی ہے جسے حکومت نے 2015 کے آغاز میں اپنایا تھا۔

ایک اور ذریعہ، سڈنی میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی طرف سے جاری ہونے والے 2019 گلوبل ٹیررازم انڈکس (جی ٹی آئی) کے مطابق، پاکستان میں گزشتہ سال میں دہشت گردی کے واقعات اور ان سے متعلقہ ہلاکتوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی سے متعلقہ ہلاکتوں کی تعداد میں کمی کا تعلق کالعدم عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ داعش-کے اور ٹی ٹی پی، کے کمزور ہو جانے سے ہے جو کہ گزشتہ چند سالوں میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث تھے۔

داعش- کے جو کہ داعش کی طرف سے جنوری 2015 میں پاکستان اور افغانستان کے لیے بنائی جانے والی مقامی شاخ ہے، نے دونوں ملکوں میں تباہ کن ترین حملوں میں سے کچھ کو انجام دیا، خصوصی طور پر ان میں مسجدوں اور عوامی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

جی ٹی آئی کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق، داعش-کے نے 2018 میں اپنے ہلاکت انگیز ترین حملوں میں سے تین کو انجام دیا-- جن میں 251 افراد ہلاک ہوئے جو اس سال پاکستان میں دہشت گردی سے ہلاک ہونے والی ہلاکتوں کا 36 فیصد تھا، ان میں سے زیادہ تر بلوچستان میں ہوئے۔

دہشت گردی کا سب سے ہلاکت انگیز حملہ اس سال جولائی 2018 کو بلوچستان کی مستانگ ڈسٹرکٹ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کے لیے ہونے والی انتخابی ریلی میں ہوا جس میں کم از کم 150 افراد ہلاک ہو گئے اور یہ اس سال عالمی سطح پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں سے ہلاکت انگیزی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر تھا۔

پھر بھی، گروہ کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی مسلسل اور وسیع مہمات، جن میں ان کے اہم راہنماؤں کی ہلاکتیں اور گرفتاریاں بھی شامل ہیں، نے داعش-کے کے نیٹ ورک کو چکنا چور کر دیا ہے۔

البغدادی کی ہلاکت کا اثر

یقینی طور پر، بہت سے تجزیہ نگاروں اور سیکورٹی کے حکام نےداعش-کے کی تنزلی کو اس کے فریبی سربراہ ابوبکر البغدادی اور اس کے ساتھ ہی مشرقِ وسطی میں ہونے والی شکستوں سے جوڑا ہے۔

داعش گزشتہ مارچ، میں اپنے زیرِ انتظام علاقے کے آخری حصے سے بھی محروم ہو گئی اور البغدادی گزشتہ اکتوبر میں امریکہ کی خصوصی فورسز کی طرف سے شمال مغرب میں رات کو ہونے والے حملے میں عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہلاک ہو گیا تھا۔

کراچی میں سندھ کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ کے ایک اہلکار جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ انہیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ "داعش کے خلاف کامیابیاں اور البغدادی کی ہلاکت نے پہلے سے موجود پاکستانی عسکریت پسندوں کی طرف سے مزید بھرتی رک گئی ہے جو کہاکثر بین الملکی عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ داعش اور القاعدہ سے متاثر ہوتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے داعش-کے کے عسکریت پسندوں کو افغانستان میں گھیرے کی کوششوں سے اس گروہ کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔

پاکستان میں داعش-کے، جو کہ مسلمان اقلیتوں جیسے کہ شیعہ اور صوفیوں کو نشانہ بنانے سے فرقہ ورانہ فساد پھیلانا چاہتی ہے، نے لشکرِ جھنگوی جو کہ ایک کالعدم فرقہ ورانہ گروہ ہے، سے اتحاد کر لیا ہے۔

تاہم، ایل ای جے کو خود ہی پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کریک ڈاون کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے راہنماؤں کی اکثریت یا تو ہلاک ہو گئی ہے یا گرفتار ہو گئی ہے۔

ٹی ٹی پی جو کہ 12 سال پہلے بنی تھی، کی ملک کے اندر سرگرمیوں میں کمی آئی ہے۔ سیکورٹی فورسز نے اس کے اعلی سطحی راہنماؤں کو ہلاک یا گرفتار کر لیا ہے اور اندرونی تنازعات نے اس کے باقی بچ جانے والے ارکان کی توانائیوں کو نچوڑ لیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

انشاء اللہ پاکستان چند برسوں میں دنیا کا پرامن ترین ملک ہو گا۔ اس کے لیے پاک فوج مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔ پاک فوج زندہ باد

جواب