دہشتگردی

پاکستان میں گھسنے کی کوشش کرنے والے غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے "کوئی پناہ گاہ نہیں"

جاوید محمود

ایک پاکستانی فوجی 8 مئی کو بلوچستان میں پاکستانی افغان سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔ ]بنارس خان/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی فوجی 8 مئی کو بلوچستان میں پاکستانی افغان سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔ ]بنارس خان/ اے ایف پی[

اسلام آباد -- سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فورسز ایسے وسطی ایشیائی عسکریت پسندوں کو، جو شام سے بھاگ کر پاکستان میں اس مقصد کے تحت داخل ہو رہے ہیں کہ وہ بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنائیں، روکنے کے لیے تیار ہیں۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے مینجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ بات سچ ہے کہ ازبکستان اور ترکمانستان سے تعلق رکھنے والے ایسے عسکریت پسند جو شام کو ہجرت کر گئے تھے، اپنے آبائی علاقوں کو واپس آ رہے ہیں اور وہ افغانستان اور پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں"۔

ان عسکریت پسندوں میں سے بہت سے "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی صفوں سے بھاگ رہے ہیں، جسے عراق سے نکال باہر کیا گیا ہے اور وہ شام میں آخری دموں پر ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، دوسروں کا تعلق اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) اور چین میں قائم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) سے ہے۔

افغانستان میں داعش کی شاخ کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں اس کے اپنے ارکان کو سامان سے محروم، سردی سے ٹھٹھرتے، پناہ گاہ کے بغیر اور اونچے پہاڑی علاقوں میں قلیل خوراک اور ساز و سامان کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ ]فائل[

افغانستان میں داعش کی شاخ کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں اس کے اپنے ارکان کو سامان سے محروم، سردی سے ٹھٹھرتے، پناہ گاہ کے بغیر اور اونچے پہاڑی علاقوں میں قلیل خوراک اور ساز و سامان کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ ]فائل[

خان نے کہا کہ ان بدنامِ زمانہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو افغانستان بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ علاقے میں خون خرابے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں شدت لا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور علاقے بھر میں خونریزی کو ختم کرنے کے لیے سیکورٹی کے تمام اہم فریقین کو عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے اور امن کے فروغ کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے۔

خان نے کہا کہ سیکورٹی کے عملے کو افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کی حفاظت کرنی چاہیے اور مختلف انٹیلیجنس اور سیکورٹی کی تنظیموں کے درمیان تعاون کو مزید بہتر بنانا چاہیے۔

خطرات کا اندازہ لگانا

آئی ایس ایس آئی کے ریسرچ فیلو میر شیرباز خترانی نے پندرہ مئی کی رپورٹ میں لکھا کہ داعش کی حالیہ شکستوں کے بعد، آئی ایم یو اور ای ٹی آئی ایم کے عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد ہو سکتا ہے کہ اب افغانستان اور پاکستان پر نظر رکھے ہوئے ہو۔

رپورٹ میں دی نیوز انٹرنیشنل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے گلگت-بلتستان، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں آئی ایم یو اور ای ٹی آئی ایم دونوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے خفیہ مہمات انجام دی ہیں۔

آئی ایس ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق، ای ٹی آئی ایم چین کے سنکیانگ صوبہ میں رہنے والے اویغور باشندوں کے لیے آزادی کی حمایت کرتی ہے اور اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ای ٹی آئی ایم کے عسکریت پسند پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

فروری میں، امریکہ کے فضائی حملے نے افغانستان کے صوبے بدخشاں میں طالبان اور ای ٹی آئی ایم کی تربیتی سہولیات کو تباہ کیا تھا۔

نیٹو کے کمانڈر ایرفورس میجر جنرل جیمز بی ہیکر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "ان تربیتی سہولیات کی تباہی سے، دہشت گردوں کو چین اور تاجکستان کی سرحد کے ساتھ کسی کاروائی کی منصوبہ بندی کرنے کا انسداد ہوتا ہے"۔

دریں اثنا، آئی ایم یو -- جس نے 2004 میں ازبکستان میں امریکہ اور اسرائیل کے سفارت خانوں پر خودکش حملے کیے تھے -- کے ایسے دھڑے موجود ہیں جو طالبان یا داعش سے انتہائی وفادار ہیں۔

آئی ایم یو پر 2005 اور 2006 میں تاجکستان اور کرغزستان میں بم دھماکے کرنے کا الزام بھی ہے۔

پاکستان چوکنا ہے

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ آئی ایم یو کے کچھ دھڑوں نے افغانستان میں داعش کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا ہے اور شام سے آنے والے اس کے ارکان ہو سکتا ہے کہ وہاں پر کچھ ہمدردی پا سکیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مگر وہ پاکستان میں پناہ گاہیں ڈھونڈنے میں ناکام رہیں گے"۔

شاہ نے کہا کہ تین سال پہلے، داعش اور آئی ایم یو کے حامی دھڑوں اور طالبان سے تعلق رکھنے والے تقریبا 200 سے عسکریت پسند افغانستان میں دو گروہوں کے درمیان جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اگرچہ داعش آئی ایم یو کے حامیوں کے پاس خودکش اور دوسرے بم دھماکے کرنے کے لیے افرادی قوت اور مہارت ہے مگر اسے "طالبان کے ساتھ اپنی دشمنی کے باعث افغانستان میں کافی مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، افغان اور اتحادی فورسز نے داعش پر اپنی نظر گاڑ رکھی ہیں اور انہوں نے کافی زیادہ کو ہلاک کیا ہے۔

ای ٹی آئی ایم کے بارے میں شاہ نے کہا کہ وہ چین اور افغانستان کے ساتھ کے کچھ سرحدی علاقوں کا ایک نسبتا کم طاقت ور گروہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ارکان چین کے صوبے سنکیانگ میں چھرا گھونپنے کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چھرا گھونپنے کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای ٹی آئی ایم ابھی خودکش دھماکوں یا دوسرے دھماکے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ ای ٹی آئی ایم کے سرگرم کارکن ایسے پمفلٹ اور بروشر بنانے میں مہارت رکھتے ہیں جن میں عسکریت پسندی اور مذہبی نفرت کو فروغ دیا گیا ہوتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

کہنا آسان ہے کرنا مشکل ہے

جواب

Mashallah zaberdast

جواب