اسلام آباد - اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ عسکریت پسندوں اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو ہدف بنانے والے آپریشنوں کی وجہ سے اس سال دیسی ساختہ بموں (آئی ای ڈیز) کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔
اسلام آباد کے ایک مقامی تھنک ٹینک، پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق، دیسی ساختہ بموں سے ہونے والے دھماکے سنہ 2009 اور 2014 کے درمیان اپنے عروج پر تھے لیکن جب فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا اس کے بعد ان کی تعداد کم ہو گئی۔
پی آئی سی ایس ایس کی ڈیٹابیس ظاہر کرتی ہے کہ دیسی ساختہ بموں سے سب سے زیادہ اموات سنہ 2013 میں ہوئیں، جس میں 426 دھماکوں میں 718 افراد جاں بحق ہوئے۔
سنہ 2014 سے آغاز کرتے ہوئے، تیزی کے ساتھ کمی کا آغاز ہوا۔ سنہ 2015 میں، 268 دھماکوں میں 268 اموات ہوئیں۔
اس سال ابھی تک، 53 دیسی ساختہ بم دھماکوں نے 61 جانیں لی ہیں - جو کہ سنہ 2003 کے بعد سے سب سے کم تعداد ہے، جب پورے سال میں 19 دیسی ساختہ بم دھماکے ہوئے تھے۔
تیسرا مہلک ترین ہتھیار
پی آئی سی ایس ایس کے مطابق، دیسی ساختہ بم پاکستان میں عسکریت پسندوں کا تیسرا مہلک ترین ہتھیار ہیں۔ جسمانی حملے اور خود کش بم دھماکے فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔
پی آئی سی ایس ایس نے مزید کہا کہ سنہ 2004 اور 2015 کے درمیان پورے ملک میں 4،650 سے زائد افراد دیسی ساختہ بم دھماکوں میں جاں بحق ہوئے تھے۔
پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ آپریشن ضربِ عضب نے القاعدہ، طالبان اور دیگر کالعدم جماعتوں کی بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔
شاہ نے کہا، "جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان دہشت گردوں کے مراکز تھے۔ فوج نے ان علاقوں کو دہشت گردوں سے خالی کروا لیا۔"
انہوں نے کہا، ضربِ عضب کے دوران، فوج نے اسلحہ، بارود اور دیسی ساختہ بموں کا مواد قبضے میں لیا، جس نے دہشت گردوں کی بڑے دھماکے کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اب فوج دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانوں کا صفایا کرنے کی کوشش میں افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہے۔
کراچی میں بھی کامیابی
ستمبر 2013 کے بعد سے، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بے رحمانہ دباؤ نے دہشت گردوں کی کراچی کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔ اس مہینے، رینجرز نے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا جو آج تک جاری ہے۔
کراچی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کراچی میں دفاعی ایجنسیوں کے مخصوص آپریشنوں نے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو شدید دھچکا لگایا ہے۔ اس نے ان کی سرکاری دفاتر اور عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو کم سے کم کر دیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ دفاعی اہلکار عسکریت پسندوں کو پکڑنے اور دہشت گرد حملوں کی کوششوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کراچی میں باقاعدگی سے اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہیں۔
کراچی میں عسکریت پسندی کی پیش بندی کرنے اور امن برقرار رکھنے کے لیے رینجرز، پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو لازماً یہ کارروائیاں جاری رکھنی ہوں گی۔
عسکریت پسندی کی مکمل بیخ کنی کے لیے، بٹ نے ایسے آپریشنوں کو دیہات اور دیگر شہری علاقوں تک پہنچنے کے لیے وسیع کرنے کی تجویز دی۔
انہوں نے کہا کہ مزید برآں، فوج کو عسکریت پسندوں کے سرمایہ کاروں اور ساتھیوں کو سزائیں دینے کے لیے پکڑنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے تنبیہ کی، "بصورتِ دیگر، عسکری گروہ ایک بار پھر اپنی حمایت جمع کر لیں گے اور اپنی طاقت بڑھا لیں گے، جس سے امن و امان، عوام اور دفاعی اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔"
bil kul drust hai pak foj buht mehnat aur janfashani se kam kar rehi hai ham har hal har soorat foj k saath hyn insha Allah wo din door ni jab pak foj en tamam logoon ko nikal baher kre gi insha Allah
جوابتبصرے 1