اسلام آباد - شمالی وزیرستان میں فوج کے آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے کے دو برس بعد، پاکستان میں دہشت گردوں کی قسمت کے ستارے گردش میں ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس قبائلی ایجنسی میں دہشت گردوں کے کیمپوں اور ٹھکانوں کی بلارکاوٹ تباہی نے پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کو کم کر دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ فوجی دستوں کی جانب سے اپریل میں شوال، شمالی وزیرستان میں انسدادِ دہشت گردی آپریشنوں کو ختم کرنے کے بعد، وہ لڑائی کو "پورے ملک میں دہشت گردوں کے معاونین اور سلیپر سیلز" تک لے جا رہے ہیں۔
فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "کومبنگ آپریشن ۔۔۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقامی افراد کی مدد کے ساتھ کامیابی سے رواں دواں ہے۔"
اسلام آباد کے مقامی سینٹر برائے تحقیقی و دفاعی مطالعات (سی آر ایس ایس) کے انتظامی ڈائریکٹر، امتیاز گل نے کہا کہ فوج اور پولیس کی جانب سے پورے ملک میں دہشت گردوں کی چندہ جمع کرنے اور آزادی سے نقل و حرکت کرنے کی صلاحیت کو تباہ کرنے کے بعد، کومبنگ آپریشن دہشت گردوں کے لیے مزید مسائل پیدا کر رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد حملوں کی کثرت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ سنہ 2015 کی پہلی سہ ماہی میں انہوں نے 12 دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے تھے۔ اس سال پہلی سہ ماہی میں آٹھ حملے ہوئے۔
دہشت گردوں کے خلاف ضربِ عضب
پاکستانی فورسز نے جون 2014 میں کراچی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایک مہلک دہشت گرد حملے کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔
فوج، جو ہوائی اور زمینی حملے کر رہی ہے، نے سینکڑوں کمین گاہوں کو تباہ کیا، بے شمار اسلحے کے ذخائر کو اڑا دیا اور ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک یا گرفتار کیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ دفاعی قوتوں نے آپریشن شروع ہونے کے بعد سے 4،000 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، فوج کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑی، جس میں فوج اور دیگر محکموں کے 488 ارکان ضربِ عضب شروع ہونے کے پہلے ڈیڑھ سال کے دوران شہید ہوئے۔
کامیاب آپریشن امن و استحکام لائے ہیں
حکام کا کہنا ہے کہ ضربِ عضب کی کامیابی پورے ملک میں عوام کی خوشیوں کے دوبارہ شروع ہونے میں قابلِ ادراک ہے۔
گل نے کہا کہ سب سے زیادہ مستفید وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ہوئے ہیں، جو کبھی دہشت گردی کا مرکزی مقام تھے۔
اسلام آباد کے مقامی فاٹا تحقیقاتی مرکز کے سابق صدر، اشرف علی نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ پورے ملک میں بہتر عوامی سلامتی انتہائی خوش آئند ہے، لیکن ایک دیرپا امن کے قیام میں کافی وقت لگے گا۔
سی آر ایس ایس کے مطابق، فاٹا میں، سنہ 2016 کی پہلی سہ ماہی میں 239 افراد دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔ سنہ 2015 کی پہلی سہ ماہی میں یہ کل تعداد 619 تھی۔
اگرچہ کچھ زیادہ اثر والے دہشت گردی کے واقعات ہنوز ہوتے ہیں، دیگر علاقے جیسے کہ خیبر پختونخوا (کے پی)، سندھ اور بلوچستان سے بہتری کی اطلاعات آ رہی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر، سندھ جس میں کراچی شامل ہے، جہاں دہشت گرد اور مجرموں کے گینگ برسوں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، میں سنہ 2016 کی پہلی سہ ماہی میں دہشت گردی کی وجہ سے 158 اموات ہوئی ہیں۔ سنہ 2015 کی پہلی سہ ماہی میں یہ کل اموات 368 تھیں۔
مزید کام کرنے کی ضرورت ہے: مبصرین
پشاور کے مقامی عسکری تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ مکمل کامیابی کے لیے، پاکستان اور افغانستان کو مزید کام کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا، "جنگجوؤں کی اکثریت افغانستان فرار ہو گئی ہے۔"
حکام دہشت گردوں کی جانب سے فاٹا کو نامہربان پانے کے بعد مایوس دہشت گردوں کے صوبہ پنجاب میں پھیلاؤ سے لڑنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ لاہور میں ایک سانحہ مارچ میں رونما ہوا تھا، جب ایک خودکش بمبار نے عیسائی اقلیت کی جانب سے ایسٹر کے تہوار کے دوران 72 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
پشاور کے ایئرمارشل (ر) مسعود اختر، ایک دفاعی تجزیہ کار نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا، "پنجاب جیسے علاقوں کو سول حکومت کی زیادہ توجہ کی ضرورت ہو گی۔ تاہم، مخبری کی بنیاد پر آپریشنز اور کومنبگ آپریشن نے مثبت نتائج دینے شروع کر دیئے ہیں۔"
پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے سینٹرل ایشیاء آن لائن کو بتایا کہ کومبنگ آپریشن، جس میں فوج اور دیگر ادارے شامل ہیں، دہشت گردوں کی حملے کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیں گے۔