سلامتی

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانی شروع کر دی

عدیل سید

پاکستان-افغانستان سرحد پر حال ہی میں لگائی جانے والی باڑ کو 20 جون کو جاری ہونے والی ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ پاکستان بہت زیادہ سرایت کے شکار علاقوں میں باڑ لگا رہا ہے تاکہ سرحد پار عسکریت پسندوں کی حرکت کو روکا جا سکے اور علاقائی سیکورٹی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ]آئی ایس پی آر[

پاکستان-افغانستان سرحد پر حال ہی میں لگائی جانے والی باڑ کو 20 جون کو جاری ہونے والی ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ پاکستان بہت زیادہ سرایت کے شکار علاقوں میں باڑ لگا رہا ہے تاکہ سرحد پار عسکریت پسندوں کی حرکت کو روکا جا سکے اور علاقائی سیکورٹی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ]آئی ایس پی آر[

پشاور -- پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانا شروع کر دی ہے جو کہ سیکورٹی کو بہتر بنانے اور دونوں اطراف سے دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کو روکنے کے اقدامات کا حصہ ہے۔

پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سرحدی سیکورٹی کو بہتر بنانے کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے 20 جون کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک محفوظ سرحد دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے اور سرحدی سیکورٹی کا ایک بہتر طور پر مربوط طریقہ کار دیرپا امن اور استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے"۔

یہ منصوبہ دو مراحل میں مکمل ہو گا: پہلے باجوڑ، مہمند اور خیبر ایجنسیوں میں انتہائی سرایت کے شکار سرحدی علاقوں میں باڑ لگائی جائے گی اور پھر باقی کے سرحدی علاقوں جس میں بلوچستان بھی شامل ہے، میں یہ کام کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے علاوہ، پاکستانی فوج اور خیبرپختونخواہ (کے پی) کی فرنٹئیر کور مل کر نئے قلعے اور سرحدی چوکیاں تعمیر کر رہی ہے تاکہ "نگرانی اور دفاع کو بہتر بنایا جا سکے"۔

سیکورٹی کو بہتر بنانا

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) اسلام آباد کے ڈین پرویز اقبال چیمہ نے کہا کہ "باڑ لگانا پاکستان کی طرف سے علاقے میں بہتر سیکورٹی کے لیے اپنائی جانے والی سرحدی انتظام کی پالیسی کا حصہ ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں کیونکہ دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کی شکایت دونوں اطراف سے کی گئی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ سرحد پر باڑ لگانے سے سرحدی علاقوں میں رہنے والی پشتون آبادی متاثر ہو گی مگر اس کا پاکستان اور اس کے ساتھ ہی افغانستان پر سیکورٹی کے لحاظ سے بہت مثبت اثر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان کو ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کیونکہ اس کے پاس افغانستان کے ساتھ اپنی طویل اور مسام دار سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے کوئی اور چارہ نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اور دونوں ممالک کو اپنے شہریوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "امن کے بغیر ہم ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکتے"۔

پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے سینئر پروڈیوسر لطف الرحمان جو این ڈی یو میں ڈاکٹریٹ کے ڈگری کے لیے ڈیورنڈ لائن پر تحقیق کر رہے ہیں نے کہا کہ سرحد پر باڑ لگانے سے "عسکریت پسندوں کی سرحد پار نقل و حرکت کم ہو جائے گی اور امن و امان کو قائم رکھنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "باڑ لگانے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی انتظام بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور سرحد پار دراندازی کے بارے میں ایک دوسرے کو الزام دینے کا کھیل ختم ہو جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان کو اس قدم کو خوش آمدید کہنا چاہیے جس کا مقصد دہشت گردی کی روک تھام کرنا اور علاقے کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے"۔

رحمان نے کہا کہ حکومت کو کے پی میں لوئر دیر اور چترال میں بھی سرحد پر باڑ لگانی چاہیے جو زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور وہاں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسمگلنگ کو کم کرنا، دہشت گردی سے جنگ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیرمین محمد ارشاد نے بدھ (28 جون) کو پشاور میں ایک تقریب میں، جس میں پاکستان فارورڈ نے بھی شرکت کی، کہا کہ "پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانا قابل تحسین کام ہے۔ اس سے نہ صرف دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کو روکا جا سکے گا بلکہ سے اسمگلنگ کو بھی قابو کیا جا سکے گا"۔

انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ سے پاکستان کو سالانہ کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ سرحد سے "معیشت کو تحریک ملے گی"۔

اسلام آباد کے غیر سرکاری تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز کے شریک بانی اور ڈائریکٹر محمد آصف نور نے کہا کہ "یہ دہشت گردی کے خلاف جاری ہماری جنگ کے سلسلے میں ایک اچھی پیش رفت ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ سرحد کو محفوظ بنانا ایک "پیچیدہ مسئلہ ہے" اور "باڑ لگانے سے دونوں حکومتوں کو دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے میں مدد ملے گی"۔

سرحد کے ساتھ رہنے والے قبائل جو کہ ڈیونڈر لائن سے تقسیم ہو گئے ہیں، کی مدد کرنے کے لیے آصف نے تجویز کیا کہ سرحد پار نقل و حرکت کے لیے خصوصی اجازت نامے فراہم کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ "کے پی میں لوئر دیر سے لے کر بلوچستان میں چمن تک ایسے ہزاروں خاندان ہیں جو تقسیم ہو چکے ہیں اور ہر روز سرحد پار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اجازت نامے دیے جانے چاہیں تاکہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے رشتہ داروں سے مل سکیں"۔

پشاور یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جمیل احمد چترالی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی انتظام "بہت اہم" ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ دہشت گردوں کی بے گناہ لوگوں پر تشدد ڈھانے کی صلاحیت کو ختم کرنے کی طرف ایک ضروری قدم ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو غیر قانونی طور پر پار کیے جانے کو روکا جائے تاکہ دونوں اطراف سے دراندازی کو روکا جا سکے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

خوب

جواب