اسلام آباد -- سرحد پار سے حملوں کے ایک سلسلے کے بعد، پاکستان افغانستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ، مشترکہ سرحد کے ساتھ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں کے خلاف ایکشن لے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے 27 اگست کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے سرحد کے ساتھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے مقامات کو باضابطہ طور پر سانجھا کیا ہے اور افغان حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی فورسز کو وہاں پر تعینات کرے۔
دفتر نے اس امید کا اظہار کیا کہ "افغانستان ان معاملات پر باہمی سمجھ بوجھ کو مدِنظر رکھتے ہوئے، ضروری اقدامات کرے گا"۔
یہ بیان حالیہ مہینوں میں سرحد پار سے،پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کے بعد آیا ہے۔
فوج نے 9 ستمبر کو ایک بیان میں کہا کہ تازہ ترین حملے میں، افغانستان کے ساتھ سرحد کی حفاظت کرنے والے تین پاکستانی فوجی اس وقت ہلاک ہو گئے جب "سرحد پار سے دہشت گردوں نے دیر کے قصبے میں ان پر فائرنگ شروع کر دی"۔
اس سے پہلے ہونے والے ایک واقعہ میں، دیگر چھہ فوجی، 27 جولائی کو شمالی وزیرستان کے علاقے گرباز میں اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے ان پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔
سرحد پار دہشت گردی
ملک بھر میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے بعد، عسکریت پسندوں نے اپنے ٹھکانوں کو، ہمسایہ ملک افغانستان منتقل کر دیا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی، عزیز بونیری جو علاقے میں سیکورٹی کے مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں، نے کہا کہ "وہاں سے، ٹی ٹی پی اور طالبان کے دوسرے دھڑے، پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے اور انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں"۔
بونیری نے کہا کہ "گزشتہ سال کے دوران، سرحد پار سے ہونے والی ایسی دہشت گردی کے باعث سرحد پار کرنے کے مقامات کو بند کرنے اور ساز و سامان اور افراد کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کا باعث بنی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عسکریت پسند دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارت اور انسانی رابطے کے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں"۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی کے راہنماؤں کے خلاف حالیہ حملوں نے افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی کو ظاہر کیا ہے۔
جون 2018 میں ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کو افغانستان کے صوبہ کنڑ میں، افغان-امریکہ متحدہ حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
کابل سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی بصیر احمد نے کہا کہ افغان حکومت، ٹی ٹی پی سمیت پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف ایک آپریشن کر رہی ہے۔
ہوتک نے افغانستان کے سیکورٹی حکام کے ساتھ اپنے حالیہ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "دونوں ملک، اپنے طالبان گروہوں کی وجہ سے دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ عسکریت پسند دھڑوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں"۔
دونوں ممالک نے، 2014 میں اس وقت تعاون کا آغاز کیا تھا جب افغان حکومت نے لطیف محسود، جو کہ اس وقت کے ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ کے بعد سیکنڈ ان کمانڈ تھے، کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔ افغان حکام نے محسود کو 2013 میں لوگر، افغانستان سے گرفتار کیا تھا۔
ہوتک نے کہا کہ 2010 میں، پاکستان کے طالبان عسکریت پسند افغانستان منتقل ہو گئے ہیں، کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ، تاکہ وہ پاکستان میں عسکری آپریشن سے بچ سکیں اور افغان طالبان انہیں پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے باعث، یہ حملے کافی زیادہ حد تک ختم ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی طرف سے شائع کی جانے والی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2018 میں افغانستان سے سولہ سرحد پار حملوں کا آغاز کیا گیا جو کہ 2017 سے 43 فیصد کم ہیں۔
ان حملوں میں 21 سیکورٹی اہلکار اور 22 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ کل تعداد میں سے 13 میں سیکورٹی فورسز اور نگرانی کی چوکیوں اور جبکہ تین میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
2018 میں، سرحد پار سے ہونے والے ان 16 حملوں میں سے 15، خیبرپختونخواہ کے صوبہ کے مختلف حصوں میں پیش آئے۔ سولہواں حملہ چمن، بلوچستان میں پیش آیا۔
رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی نے اس میں سے 14 حملے کیے جبکہ جماعت الاحرار جو کہ ٹی ٹی پی کا ایک ذیلی گروہ ہے، نے ایک حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
سرحدی باڑ
دریں اثنا، پاکستانی فوج افغانستان کے ساتھ 2،611 کلومیٹر طویل باڑ کو لگانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹافجنرل جاوید قمر باجوہ نے مئی 2018 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کے بلوچستان کے حصہ میں باڑ لگانے کے کام کی افتتاحی تقریب میں حصہ لیا تھا۔
گزشتہ دسمبر میں، فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق، 843 میں سے 233 قلعوں پر کام مکمل ہو گیا ہے۔
انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ پاکستانی فوج نے 802 کلومیٹر کے انتہائی ترجیحی علاقے پر باڑ لگا دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ توقع ہے کہ 2019 کے اختتام تک 1،200 کلومیٹر کے مزید ترجیحی علاقے پر باڑ لگا دی جائے گی۔
طورخم سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر، مجاہد شینواری نے کہا کہ سرحد پر باڑ لگانے سے "عسکریت پسندوں کی مہمات کو کنٹرول کرنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنے میں ایک بہت بڑا قدم ہو گا"۔
انہوں نے کہا کہ سرحد کی دونوں اطراف پر رہنے والے مقامی پشتون قبائل بھی باڑ لگانے کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں اور اسے امن اور ہم آہنگی کے لیے ایک قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔