دہشتگردی

داعش اور ٹی ٹی پی پر کریک ڈاؤن کے دوران پاکستان میں خودکش حملوں میں کمی

ضیاءالرّحمٰن

15 جولائی کو کراچی کے ایک بازار میں سیکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

15 جولائی کو کراچی کے ایک بازار میں سیکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

کراچی – گزشتہ برس "دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" کی خراسان شاخ (آئی ایس آئی ایس - کے) اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے عسکریت پسند گروہوں پر کریک ڈاؤن کے نتیجہ میں پاکستان میں خود کش حملوں میں کمی آئی۔

جنوری میں ایک اسلام آباد اساسی سیکیورٹی تھنک ٹینک پاکستان ادارہ برائے علومِ امن (پِپس) کی جانب سے شائع کی گئی ایک سالانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2019 میں چار خود کش حملے ریکارڈ کیے گئے، جو کہ گزشتہ برس میں ہونے والے 19 حملوں سے کم تھے۔

پِپس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2019 میں ہونے والے یہ حملے لورالائی، کوئٹہ، لاہور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئے، جن میں کم از کم 55 افراد جاںبحق اور 122 زخمی ہوئے۔ آئی ایس آئی ایس - کے اور ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی۔

2018 میں خودکش حملوں میں 317 افراد جاںبحق اور 482 دیگر زخمی ہوئے۔

مارچ 2015 میں کراچی میں مسیحی برادری کے ارکان لاہور میں دو گرجہ گھروں پر خودکش حملوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

مارچ 2015 میں کراچی میں مسیحی برادری کے ارکان لاہور میں دو گرجہ گھروں پر خودکش حملوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

پِپس کے ڈائریکٹر محمّد عامر رانا نے کہا کہ گزشتہ برس سابقہ قبائلی علاقہ جات میں عسکریت پسندوں—بطورِ خاص ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والوں – کی کمین گاہوں کو ہدف بنانے والے عسکری آپریشنز کے ساتھ ساتھ خودکش حملہ آوروں کے تربیت دہندگان کا مارا جانا کلیدی وجوہات تھیں۔

رانا نے کہا، "انسدادِ دہشتگردی کے آپریشنز کی کامیابی نے دہشتگرد گروہوں کے لیے خود کش حملے کرنا مشکل بنا دیا ہے۔"

تاہم ملک میں دہشتگرد مسلسل فعال ہیں۔

17 فروری کو ہونے والا ایک خودکش حملہ، جس کی ذمہ داری داعش کے نے قبول کی، کوئٹہ میں ایک ہجوم کے پرخچے اڑاتے ہوئے کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت اور 20 دیگر کے زخمی ہونے کا باعث بنا۔

اسی دہشتگرد گروہ نے 10 جنوری کو کوئٹہ میں ایک مسجد میں ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی جس میں کم از کم 14 افراد جاںبحق اور 20 دیگر زخمی ہو گئے۔

حال ہی میں 11 اگست کو ایک ٹی ٹی پی خود کش حملہ آور نے جنوبی وزیرستان میں خود کو ایک عسکری گاڑی کے قریب دھماکے سے اڑا لیا، جس سے تین فوجی زخمی ہوئے۔

طویل عرصے سے جاری ایک کاوش

پِپس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں جولائی2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد میں پناہ لینے والے عسکریت پسندوں کے خلاف ایک عسکری آپریشن کے بعد اسی برس خود کش حملوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔

رپورٹ کے مطابق، دہشتگرد گروہ خوف پیدا کرنے میں خود کش بم حملوں کو اپنا مہلک ترین اور مؤثر ترین ہتھیار سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں القاعدہ اور اسکے ملحقہ گروہ، جیسا کہ ٹی ٹی پی اور اس کے الگ ہونے والے دھڑوں کے ساتھ ساتھ لشکرِ جھنگوی نے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے خود کش بم حملوں کا استعمال کیا ہے۔

داعش-کے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی خود کش حملوں کے پیچھے ایک کلیدی گروہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔

اگرچہ عسکریت پسند گروہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خود کش حملوں کو صرف ریاست کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تاہم ایسے گروہوں نے سینکڑوں معصوم شہریوں کو قتل کیا ہے۔

پِپس کے مطابق، 2007 میں پاکستان میں خود کش حملوں کے 56 واقعات ہوئے، جن میں 220 شہریوں کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس کے 422 ارکان جاںبحق ہوئے۔ ان میں 27 دسمبر کو پاکستان کی ایک سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو کا قتل بھی شامل ہے۔

حملوں کو روکنے کے لیے حکومت نے متعدد عسکری آپریشنز کا آغاز کیا، بطورِ خاصشورشی گروہوں کے نیٹ ورکس کو اکھاڑنے اور ان کے رہنماؤں کو پکڑنے یا قتل کرنےکے لیے 2014 میںآپریشن ضربِ عضب۔

میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہ ہونے پر اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی درخواست کرنے والے کراچی کے انسدادِ دہشتگردی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ تب سے جاری آپریشنز خود کش حملوں میں نمایاں کمی کا باعث بنے، اور 2019 میں ایسے چار حملوں کا شمار ان کے مؤثر ہونے کی دلیل ہے۔

2013 میں کراچی میں شعیہ آبادی کے ایک علاقے عبّاس ٹاؤن کی ایک مصروف گلی میں ایک خود کش بم حملے میں بچ جانے والے یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم ضمیر جعفری نے کہا کہ معصوم جانیں لینے والے ایسے اقدامات کسی بھی مذہب میں ناقابلِ قبول ہیں۔

اس کے والد بم حملے میں جاںبحق ہونے والے 50 سے زائد افراد میں شامل تھے۔

اس نے کہا، "داعش-کے ہو، خواہ ٹی ٹی پی، عسکریت پسند گروہوں کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ایسی بربریت کی کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500