سلامتی

پاک امریکہ عسکری مشقوں کی بحالی تعلقات کی بہتری کی غمّاز

ضیاءالرّحمٰن

23 مارچ کو اسلام آباد میں یومِ پاکستان کی پریڈ کے دوران پاکستانی خواتین فوجی مارچ کر رہی ہیں۔ امریکہ نے جنوری میں بین الاقوامی عسکری تعلیم و تربیت پروگرام (آئی ایم ای ٹی) میں پاکستان کی شرکت کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ [فاروق نعیم/اے ایف پی]

23 مارچ کو اسلام آباد میں یومِ پاکستان کی پریڈ کے دوران پاکستانی خواتین فوجی مارچ کر رہی ہیں۔ امریکہ نے جنوری میں بین الاقوامی عسکری تعلیم و تربیت پروگرام (آئی ایم ای ٹی) میں پاکستان کی شرکت کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ [فاروق نعیم/اے ایف پی]

اسلام آباد – تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں امریکی عسکری تعلیم و تربیت پروگرام میں پاکستان کی شرکت کی بحالیدونوں ملکوں، بطورِ خاص ان ملکوں کی افواج کے درمیان گرمجوش تعلقات اور معاونتکو نمایاں کرتی ہے۔

امریکہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلیس ویلز نے 4 جنوری کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ نے بین الاقوامی عسکری تعلیم و تربیت پروگرام (آئی ایم ای ٹی) میں پاکستان کی شرکت کو معطل کرنے کے ایک برس سے زائد عرصہ کے بعد اس کی واپسی کی منظوری دی۔

انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ واشنگٹن نے "مشترکہ ترجیحات" اور "ایڈوانس امریکی قومی سلامتی پر فوج سے فوج کی معاونت کو مستحکم کرنے" کے لیے خیرسگالی کا اظہار کیا۔

ویلز نے کہا کہ پاکستان کے لیے کلی طور پر سیکیورٹی معاونت کی معطلی بدستور موثر ہے۔

پاکستان کی آئی ایم ای ٹی میں شرکت کی بحالی گزشتہ جولائی واشنگٹن میں امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان کے درمیان ایک ملاقات کے بعد سامنے آئی۔

دونوں رہنماؤں نے اپنے ممالک کے مابین تعلقات کو پروان چڑھانے کا عہد کیا۔

اس ملاقات میں ٹرمپ نے افغانستان میں امن مزاکرات کی پیشرفت میں مدد کرنے پر پاکستان کی پزیرائی کی۔

خان نے کہا کہ 1947 میں آزادیٴ پاکستان سے اب تک دونوں ملکوں کے مابین اچھے تعلقات رہے ہیں۔

انہوں نے افغانستان پر سوویت حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہم [دونوں ممالک] اکٹھے جنگیں لڑتے رہے ہیں، پاکستان ایک امریکہ کی اتحادی محازی ریاست تھا" اس کے ساتھ ساتھ 11 ستمبر، 2001 کو امریکہ میں دہشتگرد حملوں کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ بھی۔

خان کے دورہٴ واشنگٹن کے بعد، امریکہ نے پاکستان کے ایف- 16 لڑاکا طیاروں کے بیڑے کے لیے 125 ملین ڈالر (1.8 بلین روپے) کی تکنیکی معاونت کی منظوری دی۔

عسکری صلاحیتوں میں بہتری

تجزیہ کاروں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے عسکری تربیتی پروگرام میں پاکستان کو دوبارہ شامل ہونے کی اجازت دینے سے دونوں ملکوں کے عسکری رہنماؤں کے درمیان کام کے اچھے تعلقات مستحکم ہوں گے۔

آئی ایم ای ٹی صلاحیتیں اور تکنیکی مہارتیں پیدا کرنے کے لیے امریکی سیکیورٹی معاونت کا ایک پروگرام ہے جس کا مقصد دو طرفہ مفاد کے فوج سے فوج کے تعلقات کے ذریعے علاقائی استحکام کو بہتر بنانا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ آئی ایم ای ٹی کے تحت 60 سے زائد درمیانی ملازمت کے پاکستانی افسران سالانہ تربیت کے لیے امریکی اداروں میں جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "اس کی بحالی پاکستان اور امریکہ، دونوں کے لیے نہایت اہم ہے اور اس سے ان کے عسکری رہنماؤں کے درمیان کام سے متعلقہ اچھے تعلقات مستحکم ہوں گے۔"

میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی درخواست کرنے والے اس عہدیدار نے کہا، "آئی ایم ای ٹی فوج سے فوج کی رسل و رسائل کی وہ نمایاں شاہراہ ہے جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کے لیے مددگار ہو گی۔"

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام 1960 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے لیکن امریکہ کی جانب سے جوہری افزودگی سے متعلقہ پابندیوں کی وجہ سے 1991 سے 2002 تک پاکستان کے لیے معطل رہا۔

رائیٹرز نے دنیا بھر میں امریکی شعبہٴ سلامتی معاونتی پروگرام کی پیروی اور اس کا تجزیہ کرنے والی ایک غیر نافع تنظیم، سیکیورٹی اسسٹنٹ مانیٹر کا حوالہ دیتے ہوئے اگست 2018 میں رپورٹ کیا کہ پاکستان 2003 سے 2017 کے درمیان آئی ایم ای ٹی امداد کا سب سے بڑا وصول کنندہ رہا ہے۔

ایک مثبت اثر

پاکستانی پارلیمان میں سندھ کی نمائندگی کرنے والے نصرت واحد نے کہا کہ اس اقدام سے علاقائی سلامتی اور تعاون پر مثبت اثر پڑے گا۔

نصرت نے کہا، "یہ وزیرِ اعظم خان کی کامیاب سفارتی کاوشوں کا ایک نتیجہ تھا، جن کی حکومت معاشی ترقی، انسدادِ دہشتگردی کی کاوشوں اور دیگر امور میںدونوں ملکوں کے مفاد میں امریکہ کے ساتھ ایک اچھے تعلق کی حامی ہے۔"

وزیرِ اعظم بننے سے قبل خان نے امریکہ کے ساتھ ایک "متوازن تعلق" قائم کرنے کا عہد کیا تھا – ایک ایسا مؤقف جسے اس وقت مشاہدین نے سراہا تھا۔ انہوں نے سفارتی تعلقات کو قوتِ نو بخشنے اور دونوں ملکوں کے مفاد کے لیے تعلقات کی تشکیلِ نو کی ضرورت پر زور دیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی تجزیہ کار رئیس احمد نے کہا کہ عسکری تربیت کی بحالی افغان شورش کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی معاونت حاصل کرنے میں امریکہ کے لیے مددگار ہو گی۔

واشنگٹن نے اکثرافغانستان میں امن مزاکرات کی پیشرفت میں مزاکرات کی تسہیل میں مدد کو اسلام آباد کے مرہونِ منت قرار دیا ہے۔

احمد نے کہا، "پاکستان نے افغان رہنماؤں کو پاکستان مدعو کرنے سمیت متعدد اقدامات کر کے افغانستان کی 18 سالہ شورش کے خاتمہ کے عزم کا مطاہرہ کیا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

امریکی سیکیورٹی کو بہتر بنانا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ اسلام کے خلاف امریکی صلیبی جنگ کا دوسرا نام ہے۔ IMET غیرملکی تربیت حاصل کرنے والوں کی دماغ شوئی اور امریکی مفادات کو پیش رفت دینے کے لیے انہیں داخلِ فہرست کرنے کا آلہ ہے۔

جواب