سیکیورٹی تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کے فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اورامریکہ کے مابین سیکیورٹی تعاون تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور خطے میں دیگر کثیر ملکی گروہوں کو کمزور کر دے گا۔
دہشتگرد حملوں، جن کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی، میں حالیہ اضافے کا جائزہ لینے کے لیے 30 دسمبر اور 2 جنوری کو قومی سلامتی پر بات چیت کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے سول-فوجی فورم قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس ہوئے۔
این ایس سی اجلاس کے شرکاء جن میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر شامل تھے، نے ملک کے اندر کام کرنے والے دہشتگرد گروہوں کو کچل ڈالنے کا عزمِ نو کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ این ایس سی نے کابل سے کہا کہ وہ اپنی سرزمین پر پاکستانی دہشتگرد گروہوں کو محفوظ جنـّت فراہم نہ کرے اور ان کی سرپرستی ترک کر دے۔
پاکستان کی این ایس سی کے جنوری کے اجلاس کے ایک روز بعد واشنگٹن نے اسلام آباد کے انسدادِ دہشتگردی کے فیصلوں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 3 جنوری کو ایک نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "پاکستانی عوام نے دہشتگرد حملوں سے شدید نقصان اٹھایا ہے۔"
پرائس نے کہا کہ امریکہ کابل سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قبل ازاں بیان کیے گئے اپنے عزم کا اعادہ کرے "کہ افغانستان سرزمین دوبارہ کبھی بھی بین الاقوامی دہشتگرد حملوں کے لیے ایک لانچ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہو گی۔"
ٹی ٹی پی نے نومبر کے اواخر میں اسلام آباد کے ساتھ اپنی کئی ماہ طویل لڑکھڑاتی جنگ بندی کے خاتمہ کے اعلان کے بعد سے پاکستان میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایک ٹی ٹی پی خود کش بمبار نے 23 دسمبر کو اسلام آباد میں ایک رہائشی علاقہ کے قریب دھماکہ خیز مواد سے بھری اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑاتے ہوئے ایک پولیس اہلکار اور مبینہ طور پر کم از کم 10 شہریوں کو ہلاک کر دیا۔
18 دسمبر کو علی الصبح ٹی ٹٰ پی کے عسکریت پسندوں نے ضلع بنوں، صوبہ خیبر پختونخوا میں انسدادِ دہشتگردی کے ایک مرکز پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجہ میں لوگ یرغمال بنا لیے گئے اور ایک کشمکش پیدا ہو گئی۔
حکومتی افواج نے تین روز بعد مرکز کا قبضہ دوبارہ حاصل کیا اور تمام تمام 33 دہشتگرد مارے گئے۔ سپیشل فورسز کے دو ارکان شہید ہوئے۔
امریکی ڈرون حملوں میں ٹی ٹی پی قائدین کی اموات اور اندرونی خلفشار نے 2020 کے اوائل تک ٹی ٹی پی کی کمر توڑے رکھی، لیکن حال ہی میں ناراض دھڑوں کے از سرِ نو اتحاد اور اگست 2021 سے افغانستان میں واقعات نے اس گروہ کو حیاتِ نو بخش دی ہے۔
2014 میں آپریشن ضربِ عضب کے بعد سے اس کے جنگجو پاکستان سے نکال دیے گئے جو ہمسایہ افغانستان چلے گئے۔
پاکستان، امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے ٹی ٹی پی کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے ۔
پاک امریکہ تعاون میں اضافہ
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دسمبر کے وسط میں امریکی سنٹرل کمانڈ (سی ای این ٹی سی او ایم) کے چیف جنرل میکائیل "ایریک" کُریلا کے دورۂ پاکستان اور پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے فراہمیٔ مالیات جیسے واشنگٹن کے اقدامات سے دونوں ملکوں کے مابین سلامتی تعاون میں اضافہ کا اظہار ہوتا ہے۔
سی ای این ٹی سی او ایم نے 16 دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ کُریلا اور عاصم سمیت اعلیٰ پاکستانی عسکری قائدین نے "سلامتی تعاون، پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی، خطے میں دہشتگرد گروہوں کی جانب سے درپیش خدشہ، جاری آپریشنز اور سی ای این ٹی سی او ایم اور پاک فوج کے مابین تعاون میں اضافہ کے مواقع" پر بات چیت کی۔
کُریلا پشاور گئے اور گیارہویں کور کے صدر دفاتر کا دورہ کیا، جو صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے مختص ہے اور افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریبانصف کی ذمہ دار ہے۔
سی ای این ٹی سی او ایم نے کہا کہ وہ اور گیارہویں کور کے رہنما درّۂ خیبر کا فضائی جائزہ لیتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بڑی چوکی تک پہنچے، جہاں انہوں نے "سرحدی سلامتی کا مشاہدہ کیا اور افغانستان میں کام کرنے والے دہشتگرد گروہوں کے سرحد پار سے خطرے پر بات چیت کی۔"
یہ چار ماہ کے اندر کُریلا کا دوسرا دورۂ پاکستان تھا۔
پشاور میں انسدادِ دہشتگردی کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے کہا، "جنرل کُریلا کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ٹی ٹی پی اور برِّصغیر میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) اور 'دولتِ اسلامی' – صوبہ خراسان (آئی ایس کے پی) جیسے کثیرملکی گرہوں دہشتگرد گروہوں کی جانب سے پاکستان میں سلامتی کی صورتِ حال کی ابتری سے متعلق فکرمند ہے۔"
یکم دسمبر کو اے کیو آئی ایس کے تین دیگر پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے نائب سربراہ اور اس کے نام نہاد ملٹری کمیشن کے چیئرمین قاری امجد کو امریکہ نے دہشتگرد قرار دے دیا ۔
میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی درخواست کرنے والے اس پولیس عہدیدار نے کہا، " نقدی کے فقدان کا شکار پاکستان کے لیے، بطورِ خاص انٹیلی جنس کے تبادلہ میں، امریکی معاونت ٹی ٹی پی کے خلاف انسدادِ دہشتگردی آپریشنز کے لیے نہایت اہم ہے۔"
انہوں نے کہا، " دونوں ملکوں کے مابین سیکیورٹی تعاون ہی کی وجہ سے اگست 2009 میں بانی بیت اللہ محسود سے لے کر جون 2018 میں ملّا فضل اللہ تک اس گروہ کے سربراہان ۔۔۔ کے امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے کے بعد ٹی ٹی پی بڑے پیمانے پر کمزور ہو گئی۔"
ٹی ٹی پی کے ایک حالیہ خط میں ڈرون حملوں کے خدشات کی وجہ سے نچلے درجے کے عسکریت پسندوں کو ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی سے ملنے پر پابندی عائد کر دی گئی، جو کہ پاک امریکہ سلامتی تعاون کا ایک اثر ہے۔
ٹی ٹی پی نے گزشتہ بدھ (4 جنوری) کو واضح طور پر شریف اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا نام لیتے ہوئے، مبینہ طور پر امریکہ کو "مطمئن" کرنے کے لیے اس دہشتگرد گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے پر پاکستانی سیاسی قیادت پر حملے کرنے کی دھمکی بھی دی۔
تعاون کی پزیرائی
دہشتگردی کے متاثرین اور سول سوسائٹی کے فعالیت پسندوں نے بھی ٹی ٹی پی پر کریک ڈاؤن کرنے کے حکومتِ پاکستان کے فیصلے اور انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں میں امریکہ کی جانب سے معاونت کی پیشکش کی پذیرائی کی۔
ستمبر 2013 میں پشاور میں آل سینٹس چرچ پر خودکش حملے میں اپنے دو رشتہ داروں کو کھو دینے والے مسیحی سول سوسائٹی فعالیت پسند فاتح جوزف نے کہا، "ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت نے اس دہشتگرد گروہ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ پاکستانی قوم ٹی ٹی پی کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کی جارحانہ کاروائی کے آغاز کے حکومتِ پاکستان کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔"
ڈان نے 9 دسمبر کو خبر دی کہ دسمبر میں قومی مقتدرۂ انسدادِ دہشتگردی (این اے سی ٹی اے) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں داخلی امور پر داخل کروائی گئی ایک رپورٹ میں، ملک بھر میں دہشتگردی میں اچانک اضافے کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مزاکرات کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا۔
جوزف نے واشنگٹن کی معاونت کا خیرمقدم کرتے ہوئے دیگر ممالک سے بھی کہا کہ وہ پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں میں اس کی معاونت کریں۔
انہوں نے کہا، "ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی کثیر ملکی گروہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک سیکیورٹی خدشہ پیدا کر رہے ہیں۔"