سلامتی

امریکہ کی نظریں افغانستان میں تعینات اپنی فوجوں کو ہمسایہ ممالک میں منتقل کرنے پر

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

17 مارچ 2020 کو امریکی فوجی مستقل امداد کی حمایت میں افغانستان میں ایک نامعلوم مقام پر ایک عمارت پر پہرہ دیتے ہوئے۔ [امریکی فضائیہ]

17 مارچ 2020 کو امریکی فوجی مستقل امداد کی حمایت میں افغانستان میں ایک نامعلوم مقام پر ایک عمارت پر پہرہ دیتے ہوئے۔ [امریکی فضائیہ]

واشنگٹن -- منگل (20 اپریل) کے روز خطے کے لیے ایک اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے بعد اپنی کچھ افواج کو اس کے ہمسایہ ممالک میں منتقل کرنے کے لیے مذاکرات کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

سینٹرل کمانڈ چیف جنرل کینتھ مکنزی نے امریکی کانگریس میں ایک سماعت پر بتایا، "ہم اب مزید منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ خطے میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھیں، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ افغانستان کے دوردراز کے علاقوں میں اپنی بقاء کے لیے لڑ رہی پُرتشدد انتہاپسند تنظیمیں مستقل نگرانی اور دباؤ میں رہیں۔"

صدر جو بائیڈن نے چھ ماہ کے اندر اندر افغانستان سے آخری امریکی فوجی -- ایک فوج جو اس وقت تقریباً 25،00 اہلکاروں پر مشتمل ہے -- نکالنے کا عہد کیا ہے، جس کا مقصد 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے القاعدہ کے افغانستان کو استعمال کرنے کے دو دہائیوں بعد ملک میں امریکی مداخلت ختم کرنا ہے۔

امکانات کا جائزہ لینا

مکنزی نے کہا کہ پینٹاگون ہمسایہ ممالک سے ان گروہوں کی نگرانی جاری رکھنے اور ممکنہ طور پر ان پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔

سماعت میں ان کا کہنا تھا، "اگر آپ افغانستان سے نکلتے ہیں اور آپ اس قسم کی کارروائیاں کرنے کے لیے واپس جانا چاہتے ہیں، تو آپ کو تین کام کرنے کی ضرورت ہے: آپ کو ہدف تلاش کرنے کی ضرورت ہے، آپ کو ہدف کا نشانہ لینے کی ضرورت ہے اور آپ کو ہدف کو ختم کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ان تینوں کاموں کے لیے بھاری انٹیلیجنس معاونت درکار ہے، جس سے افغانستان سے باہر رہ کر یہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر "ناممکن نہیں۔"

مکنزی نے زیرِ غور ممالک میں سے کسی کا بھی نام نہیں لیا۔

مکنزی نے ایوان کی کمیٹی برائے مسلح افواج کو بتایا، "ہم خطے کے تمام ممالک کو دیکھیں گے، ہمارے سفارتکار رابطہ کریں گے اور ہم ان مقامات کے متعلق مذاکرات کریں گے جہاں ہم امریکی وسائل کو رکھ سکتے ہیں۔"

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، "ان میں سے چند ایک بہت دور ہو سکتے ہیں، اور پھر ہمیں اس قسم کے وسائل کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی کیونکہ آپ کو وہاں سے آنے جانے کے لیے بہت سفر کرنا پڑے گا۔"

انہوں نے مزید کہا، "فی الوقت، ہمارا کسی سے بھی ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔"

سماعت کے دوران مکنزی کا کا کہنا تھا، "مجھے طالبان کے قابلِ بھروسہ ہونے کے متعلق شدید شکوک و شبہات ہیں ۔۔۔ مگر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہاں کیا کرنے والے ہیں۔"

مکنزی نے کہا، "اگر وہ افغانستان کے لیے مستقبل میں کسی قسم کی بین الاقوامی پہچان چاہتے ہیں ۔۔۔ تو انہیں ان معاہدوں کی پاسداری کرنی ہو گی جو انہوں نے کیے ہیں۔"

ترکی کانفرنس کا التواء

دریں اثناء، منگل کے روز ترکی نے کہا ہے کہ افغانستان کے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس جو ہفتے کے روز استنبول میں ہونا طے تھی اسے وسط مئی تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

ایک انٹرویو میں وزیرِ خارجہ میولوت کاووسوغلو نے حبرترک ٹیلی وژن کو بتایا، "ہم نے مذاکرات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے" جس کی وجہ احترامِ رمضان المبارک ہے جو وسط مئی میں ختم ہو جائے گا۔

پہلے ترکی نے اقوامِ متحدہ (یو این) اور قطر کی مشترکہ کفالت سے، کانفرنس کے 24 اپریل تا 4 مئی انعقاد کا اعلان کیا تھا۔

لیکن کاووسوغلو نے کہا کہ دوحہ اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ مشاورت کے بعد "ہمیں یقین ہے کہ التواء مفید ہو گا"۔

منگل کو افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے ٹویٹ کیا، "[افغان حکومت کے] برعکس، طالبان نے جنگ ختم کرنے کے لیے کسی عجلت کے احساس کا مظاہرہ نہیں کیا اور ابھی تک ایک مشترکہ مستقبل کے لیے ایک سیاسی تصفیئے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ امن کے لیے موجودہ قومی اتفاقِ رائے زیادہ دیر نہیں رہے گا۔ ہماری قوم نتائج کے لیے ایک بار پھر انہیں ذمے دار ٹھہرائے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500