جرم و انصاف

سمندر پار خفیہ چینی پولیس سٹیشنوں کے بڑھتے ہوئے شواہد سے دنیا بھر میں خوف

از پاکستان فارورڈ

31 جنوری 2022 کو نیو یارک شہر کے چائنا ٹاؤن علاقے میں ایک راہ گیر سڑک پر چلتے ہوئے۔

31 جنوری 2022 کو نیو یارک شہر کے چائنا ٹاؤن علاقے میں ایک راہ گیر سڑک پر چلتے ہوئے۔

نیو یارک -- نیو یارک میں چینی "پولیس سٹیشن" قائم کرنے کے الزام میں دو افراد کی حالیہ گرفتاری نے بیجنگ کی جانب سے دنیا بھر کے ممالک میں خفیہ پولیس چوکیاں قائم کرنے کی وسیع تر سکیم کی جانب نئے سرے سے توجہ مبذول کروائی ہے۔

ان افراد پر اپریل کے وسط میں غیر ملکی حکومت کے غیر رجسٹرڈ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے اور چینی حکام کے ساتھ ان کی بات چیت کے ثبوت کو تباہ کرکے انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

بروکلین، نیو یارک میں چوٹی کے وفاقی وکیلِ استغاثہ بریون پیس کے مطابق، انہوں نے چین کی قومی پولیس فورس کی وزارت برائے تحفظِ عامہ (ایم پی ایس) کی فوزو شاخ کے حکم پر، گزشتہ برس نیو یارک شہر کے چائنا ٹاؤن میں دفتر قائم کیا تھا۔

امریکی حکام کا کہنا تھا جبکہ دفتر نے چینی شہریوں کو چینی ڈرائیور کے لائسنس کی تجدید میں مدد کرنے جیسی کچھ خدمات انجام دی ہیں، اس کا بنیادی کام عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) سے مفرور مخالفین کا سراغ لگانے اور انہیں ہراساں کرنے میں مدد کرنا تھا۔

دنیا کے نقشے میں چینی سمندر پار پولیس سروس سٹیشن والے ممالک دکھائے گئے ہیں۔ [سیف گارڈ ڈیفنڈرز]

دنیا کے نقشے میں چینی سمندر پار پولیس سروس سٹیشن والے ممالک دکھائے گئے ہیں۔ [سیف گارڈ ڈیفنڈرز]

10 مارچ 2021 کو نئی دہلی میں چینی سفارتخانے کے باہر، چینی حکمرانی کے خلاف سنہ 1959 کی تبتی بغاوت کی برسی کی یاد میں ایک احتجاج کے دوران ایک تبتی جلاوطن کارکن کو بھارتی پولیس نے حراست میں لے لیا۔[مونی شرما/ اے ایف پی]

10 مارچ 2021 کو نئی دہلی میں چینی سفارتخانے کے باہر، چینی حکمرانی کے خلاف سنہ 1959 کی تبتی بغاوت کی برسی کی یاد میں ایک احتجاج کے دوران ایک تبتی جلاوطن کارکن کو بھارتی پولیس نے حراست میں لے لیا۔[مونی شرما/ اے ایف پی]

محکمۂ انصاف کے صدر نائب معاون اٹارنی جنرل برائے قومی سلامتی، ڈیوڈ نیومین نے کہا، "ایم پی ایس نے ایک ٹھوس چوکی قائم کی، جو کہ یہیں نیو یارک شہر میں ایک غیر قانونی پولیس سٹیشن ہے، تاکہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سب سے متحرک سمندر پار آبادیوں میں سے ایک کے اندر پی آر سی کے ناقدین اور دیگر ناقدین کی نگرانی کی جا سکے اور انہیں ڈرایا جا سکے"۔

ان دونوں افراد کی گرفتاری امریکہ میں چین کے ناقدین کو ہدف بنانے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے ملزم 34 چینی قومی پولیس افسران کے خلاف ان کی غیر حاضری میں الزامات کے ساتھ عمل میں آئی ہے۔

عالمگیر غیر قانونی پولیسنگ مہم

چین کی دنیا بھر میں مہم ستمبر میں سپین میں قائم انسانی حقوق کے گروپ سیف گارڈ ڈیفنڈرز کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی تھی۔

تحقیقات میں پولیس کے زیرِ انتظام کم از کم 54 بیرون ملک مراکز قائم کیے گئے ہیں جو "غیر ملکی سر زمین پر پولیسنگ کی غیر قانونی کارروائیاں" کرتے ہیں۔

5 دسمبر کو ایک فالو اپ رپورٹ میں، سیف گارڈ ڈیفنڈرز نے کم از کم 48 اضافی چینی سمندر پار پولیس سٹیشنوں کی نشاندہی کی تھی، جس سے 53 ممالک میں مجموعی تعداد 102 ہو گئی ہے۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ "سمندر پار سروس سٹیشن" کووڈ-19 کی عالمی وباء کے دوران بیرونِ ملک شہریوں کو ڈرائیور کے لائسنس کی تجدید اور اسی طرح کے معاملات میں مدد کرنے کے لیے کھولے گئے تھے۔

تاہم، تفتیش نے سنہ 2018 کے اوائل میں چنگتیان (صوبہ ژی جیانگ) اور فوزو ( صوبہ فوجیان) دفترِ تحفظِ عامہ کی جانب سے قائم کردہ پولیس سٹیشنوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔

نئے دستاویزی سٹیشنوں کی اکثریت سنہ 2016 میں نانٹونگ (صوبہ جیانگ سو) اور وینزو (صوبہ ژی جیانگ) دفترِ تحفظِ عامہ کی جانب سے قائم کی گئی تھی -- جو ان دعوؤں کی براہِ راست تردید کرتے ہیں کہ سٹیشن عالمی وباء کے تناظر میں قائم کیے گئے تھے۔

بیجنگ کے دعوؤں کو رد کرنے کے لیے مزید شواہد فراہم کرتے ہوئے، صوبہ فوجیان کی حکومت نے فروری 2002 کے ایک خبری اجراء میں کہا تھا کہ اس نے پانچ براعظموں میں پہلے 30 "فوزو پولیس سمندر پار سروس سٹیشن" بنائے ہیں۔

خفیہ ممنوعہ مقامات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ میزبان کاؤنٹیوں نے واضح طور پر ان "پولیس سروس سٹیشنوں" کے قیام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں، نیز چینی سفارتی موجودگی، ان مقامات پر سٹیشنوں کے ساتھ قریبی تعاون سے اتفاق کیا ہے۔

ایسا ہی معاملہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہے، جہاں کم از کم دو چینی سمندر پار پولیس سروس سٹیشن مقامی حکام کے تعاون سے کام کرتے ہیں۔

یاسر حسن تخلص استعمال کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے کہا کہ تاہم، متحدہ عرب امارات کے حکام نے ماضی میں "چینی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے چلائے جانے والے ممنوعہ مقامات کا پردہ فاش کیا جو حراستی اور تفتیشی مراکز کے طور پر استعمال ہوتے تھے"۔

حسن نے کہا کہ متحدہ عرب امارات-چینی معاہدوں سے چینی پولیس کو بڑا طول و عرض ملتا ہے، "بشمول متحدہ عرب امارات میں نقل و حرکت کی آزادی اور جاسوسی کرنے، نگرانی کرنے اور اگر ضرورت ہو تو گرفتار کرنے کی [صلاحیت]"۔

انہوں نے مزید کہا، "متحدہ عرب امارات کے حکام نے بہت سے مخالفوں یا یغور مسلمانوں کو گرفتار کیا اور انہیں چین جلاوطن کر دیا"۔

بیجنگ نے گزشتہ چند برسوں میں دس لاکھ سے زائد یغوروں اور دیگر زیادہ تر مسلمان، ترک زبان بولنے والے دور دراز مغربی سنکیانگ کے علاقے کے باشندوں کو حراستی مراکز اور جیلوں کے خفیہ نیٹ ورک میں حراست میں رکھا ہے۔

الزامات میں بڑے پیمانے پر قید، جبری مشقت، لازمی نس بندی، منظم عصمت دری اور یغور ثقافتی اور اسلامی مقامات کی تباہی شامل ہیں.

سیف گارڈ ڈیفنڈرز نے دسمبر کی اپنی رپورٹ میں کہا، "دیگر ممالک میں، جبکہ اس طرح کی رضامندی ناپید ہے (یا لگتی ہے)، یوں لگتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے حکام نے (ab-) اپنے خفیہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے دو طرفہ پولیسنگ تعاون کے موجودہ طریقۂ کار کو استعمال کیا ہے"۔

قونصلر تعلقات پر سنہ 1963 کے ویانا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ میں کہا گیا ہے، "میزبان ملک کی رضامندی کے بغیر چینی سمندر پار پولیس سروس سٹیشنوں کا قیام علاقائی اور عدالتی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی نمائندگی کرتا ہے -- خواہ وہ 'صرف' قونصلر خدمات جیسے کہ پاسپورٹ یا ڈرائیور کے لائسنس کی تجدید ہی فراہم کر رہے ہوں"۔

اس میں کہا گیا ہے کہ، درحقیقت یہ "پولیس سٹیشن" چین کی حکومت کی جانب سے "ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے، ڈرانے اور اہداف کو چین واپس جانے پر مجبور کرنے" کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

وسط ایشیائی باشندوں سے بدگمانیاں

وسط ایشیاء کے باشندوں اور مقامی لوگوں نے ان خبروں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، ان کے ممالک کی چین سے قربت اور بیجنگ کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر.

سیف گارڈ ڈیفنڈرز کے مطابق، کم از کم ایک پولیس سٹیشن جو فوجو دفترِ تحفظِ عامہ کے زیرِ انتظام ہے، سر دریا، ازبکستان میں واقع ہے۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مقیم ازبک سیاسی تجزیہ کار نگارا خدویاتوفا نے کہا کہ یہ رپورٹ "بین الاقوامی جبر کے وسیع پیمانے پر چینی عمل کا ثبوت پیش کرتی ہے"۔

انہوں نے کہا، "چینی انٹیلیجنس کام کا مقصد بنیادی طور پر یغوروں کو تلاش کرنا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ چینی وسط ایشیائی ممالک میں سامان کی منڈیوں میں اپنے وفادار یغوروں کو لگاتے ہیں۔ چینی دفاعی ایجنسیاں کرغزستان میں مقامی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والوں کو بھرتی کرتی ہیں، انہیں فنڈز فراہم کرتی ہیں اور انہیں مارکیٹ کی ہر ممکن ترجیح دیتی ہیں تاکہ وہ یغور مخالفوں کے بارے میں معلومات جمع کریں"۔

خدویاتوفا نے مزید کہا کہ وہ کم از کم ایک چینی شہری سے واقف ہیں جو 10 سال سے زائد عرصے سے "جاسوسی" کے جرم میں قید ہے۔

سویڈن میں رہنے والے ازبک سیاسی تجزیہ کار پولات اخونوف نے کہا، "اگر [چینی پولیس] تھانے ازبکستان اور قازقستان میں موجود ہوں تو مجھے حیرت نہیں ہو گی"۔

انہوں نے کہا، "ایسے پولیس سٹیشنوں کے فرائض بنیادی طور پر ہمارے ممالک میں رہنے والے چینی شہریوں کا سراغ لگانا اور چین مخالف مذہبی اور قوم پرست گروہوں سے چین کو لاحق خطرات کا پتہ لگانا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ وہ ممکنہ طور پر "ہمارے ممالک کے عہدیداروں اور عام شہریوں کو بھرتی کر رہے ہیں تاکہ گہری چینی دراندازی کو یقینی بنایا جا سکے... ریاست پر کنٹرول حاصل کرنے کے مقصد سے"۔

لندن میں رہنے والے ازبک تجزیہ کار علی شیر الخاموف نے کہا کہ "واضح طور پر چین نے ازبکستان میں ایسا پولیس سٹیشن بنایا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یغور چین سے آ رہے ہیں، اور اگر ایسا ہے تو کس راستے سے اور کس کی مدد سے، خواہ وہ افراد ہوں یا گروہوں کی شکل میں ہوں"۔

اگر ازبکستان چین کی یغوروں پر ظلم کرنے میں مدد کر رہا ہے، تو "یہ ازبک حکام کے لیے شرمناک ہو گا،" انہوں نے کہا کہ یغور نسلی اور ثقافتی طور پر ازبکوں کے بہت قریب ہیں اور ازبکستان کی اپنی یغور اقلیت ہے۔

'بد نیتی سے' کام کرنا

چینی درآمدات میں کینیا کے تاجر، 47 سالہ سٹینلے کیول کے ساتھ بھی یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، "چین کے لیے بیرونی ممالک میں خفیہ طور پر پولیس سٹیشن کھولنے کا مطلب ہے کہ اسے میزبان ممالک کی پولیسنگ کے عمل پر بھروسہ نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا، "اس طرح کی کارروائی توہین اور بد نیتی ہے۔ اگر دوسرے ممالک بھی یہی کام کریں اور بیجنگ یا دیگر چینی شہروں میں اسی طرح کے غیر قانونی سٹیشن کھولیں تو کیا ردِعمل ہو گا؟ یقیناً چین ایسے سٹیشنوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا اور منتظمین کو طویل قید کی سزا سنائے گا"۔

اگرچہ کینیا ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جو چینی پولیس سٹیشنوں کی میزبانی کے لیے معروف ہیں، تاہم کچھ اہم شخصیات اور سیاست دانوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

سیف گارڈ ڈیفنڈرز کے مطابق، ہمسایہ ملک تنزانیہ میں خفیہ چینی پولیس سٹیشنوں میں سے ایک سٹیشن قائم ہے۔

کینیا کے شہر نیروبی میں تنزانیہ کے چاولوں کے ایک تاجر، 38 سالہ جوزف ٹنڈو نے کہا، "تاہم، چین میں ہمارے سفیر، مسٹر [ایمبلوا] کیروکی نے اس دعوے کی تردید کی ہے"۔

انہوں نے کہا، "مجھے امید ہے کہ یہی معاملہ ہے،" مگر ان کا مزید کہنا تھا، "آپ 100 فیصد [معلومات] پر یقین نہیں کر سکتے ہیں کہ ہماری افریقی حکومتیں ہمارا پیٹ بھرتی ہیں"۔

نیروبی میں چھٹیاں گزارنے والی یوگنڈہ کی ایک پرائمری سکول کی استانی 31 سالہ مرسی ناسیشے نے کہا، "چین بیرونِ ملک ایسے سٹیشن چلا کر ممالک کی خودمختاری کو نقصان پہنچا رہا ہے جن کا واحد مقصد چینیوں کا سراغ لگانا، نگرانی کرنا، دھمکیاں دینا، ڈرانا اور ہراساں کرنا ہے۔

ناسیشے نے حیرت کا اظہار کیا کہ ان بیرونِ ملک مراکز نے کون سے ایسے "دفتری کام" لازمی کرنے ہیں جو چینی سفارت خانے یا قونصل خانے نہیں سنبھال سکتے۔

نیو یارک میں حالیہ گرفتاریوں کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، "اگر اہلکاروں میں ایسی غیر قانونی چوکی [امریکہ میں] کھولنے کی ہمت ہے، تو بدعنوان افریقی ممالک میں کیا ہو گا؟ اس کا مطلب ہے کہ چینیوں کے ایسے لاتعداد سٹیشن ہیں جو قونصلر [خدمات] کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ یا 'چینی شہریوں کو سفری دستاویزات میں مدد دینے کے دفاتر' ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا، "ہم سب کو معلوم ہے کہ چینی حکومت اپنے تمام معاملات میں رازداری برتتی ہے، اور ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ ان پولیس سٹیشنوں کے وجود کے بارے میں دنیا کے سامنے علی الاعلان اعتراف کرے گی"۔

[قاہرہ میں ولید ابو الخیر، تاشقند میں رستم تیمروف، نیروبی میں جولیو کتھس اور اے ایف پی سے اضافی رپورٹنگ]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500