حقوقِ انسانی

اقوام متحدہ کے نئے سربراہ کی جانب سے چین پر سنکیانگ میں انسانی حقوق پر 'سنگین خدشات' کو دور کرنے کے لیے زور

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

سنہ 2021 میں استنبول میں چینی قونصل خانے کے قریب مظاہرین۔ [اوزان کوس/اے ایف پی]

سنہ 2021 میں استنبول میں چینی قونصل خانے کے قریب مظاہرین۔ [اوزان کوس/اے ایف پی]

جنیوا، سوئٹزرلینڈ -- اقوامِ متحدہ (یو این) کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے منگل (7 مارچ) کے روز بیجنگ سے چین کے صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال پر "سنگین خدشات" کو دور کرنے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا.

ترک پر مغربی اقوام اور حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباؤ ہے کہ وہ سنکیانگ پر اپنے پیشرو کی جانب سے ایک انتہائی خطرناک رپورٹ کے بعد سخت موقف اختیار کریں جس میں دور افتادہ مغربی خطے میں انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں سنکیانگ میں یغوروں اور دیگر بیشتر مسلمان، ترک زبان بولنے والی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے کی تفصیل دی گئی ہے، جس میں دنیا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مغربی خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال پر "فوری توجہ" دے۔

اس نے بڑے پیمانے پر تشدد، من مانی حراست اور مذہبی اور تولیدی حقوق کی خلاف ورزیوں کے "معتبر" الزامات کو اجاگر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کی 6 مارچ کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی 52 ویں کونسل کے اجلاس میں آمد۔ [فیبرائس کوفرینی/اے ایف پی]

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کی 6 مارچ کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی 52 ویں کونسل کے اجلاس میں آمد۔ [فیبرائس کوفرینی/اے ایف پی]

اس نے مہم چلانے والوں اور دیگر کے طویل عرصے سے جاری الزامات کی اقوامِ متحدہ سے توثیق بھی کی، جو بیجنگ پر دس لاکھ سے زائد یغوروں اور دیگر مسلمانوں کو "دوبارہ تعلیم کے کیمپوں" میں قید کرنے اور خواتین کو زبردستی بانجھ بنانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

الزامات میں بڑے پیمانے پر قید، جبری مشقت، جبری نس بندی، منظم عصمت دری اور یغور ثقافتی اور اسلامی مقامات کی تباہی شامل ہیں۔

یغور حقوق کے لیے سرگرم، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے کہا ہے کہ چین سنکیانگ میں مسلمان اقلیتی گروہوں کی "نسل کشی" کا مطالبہ کیا گیا.

گزشتہ برس اکتوبر میں، 50 ممالک نے ایک بیان پر دستخط کیے جس میں چین کی جانب سے "سنکیانگ میں یغوروں اور دیگر بنیادی طور پر مسلم اقلیتوں کے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں" کے بارے میں اقوامِ متحدہ سے 'فوری توجہ' کا مطالبہ کیا گیا۔

بیجنگ بڑی شدومد سے ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور مُصر ہے کہ وہ انتہاء پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں پیشہ ورانہ تربیتی مراکز چلا رہا ہے۔

سنگین خدشات"

ترک نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سال کے پہلے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کوسنکیانگ میں یغوروں اور تبتیوں جیسی اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش ہے۔

انہوں نے کہا، " چین کے حوالے سے، ہم نے انسانی حقوق کے مختلف امور پر عمل کرنے کے لیے متعدد فعال افراد کے ساتھ رابطے کے راستے کھولے ہیں"۔

"سنکیانگ کے علاقے میں، میرے دفتر نے سنگین خدشات کو دستاویز بند کیا ہے -- خصوصاً بڑے پیمانے پر من مانی حراستوں اور خاندانی علیحدگیوں کو -- اور اہم سفارشات کی ہیں جن کی ٹھوس پیروی کی ضرورت ہے"۔

ترک نے چین میں شہری اختلافِ رائے پر پابندیوں اور ہانگ کانگ میں سنہ 2020 میں نافذ کردہ دور رس قومی سلامتی کے قانون پر بھی بے چینی کا اظہار کیا تاکہ شہر کے بڑے اور اکثر پُرتشدد جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد اختلاف رائے کو ختم کیا جا سکے۔

"ہمیں عام طور پر شہریوں کو گنجائش دینے کی شدید پابندی کے بارے میں بھی خدشات ہیں، بشمول انسانی حقوق کے محافظوں اور وکلاء کی من مانی حراست، اور ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون کے اثرات"۔

اکتوبر میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ جنیوا میں کونسل میں ترک کی پہلی تقریر تھی۔

'حقائق کو جھٹلانا بند کریں'

تقریر کے جواب میں چینی سفیر چن ژو نے کہا کہ بیجنگ کی دہشت گردی اور بنیاد پرستی سے نمٹنے کی کوششوں سے سنکیانگ میں انسانی حقوق کا "بہت تحفظ" کیا گیا ہے۔

امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے منگل کے روز کونسل پر زور دیا کہ وہ "سنکیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین اور جاری خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے کارروائی کرے"۔

پچھلے مہینے انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن "سنکیانگ میں یغوروں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے افراد کے ساتھ دستاویزی زیادتیوں پر روشنی ڈالنا" جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

"میں ہائی کمشنر ترک کی خاص طور پر شکر گزار ہوں، جنہوں نے مجھ سے اور دوسروں کے ساتھ یہ عہد کیا ہے کہ وہ اپنے دفتر کی رپورٹ کی پشت پناہی کریں گے"۔

دریں اثناء برطانوی سفیر سائمن مینلے نے بیجنگ سے "حقائق کو جھٹلانا بند کرنے اور ترک کے دفتر کی سفارشات کے ساتھ سنجیدگی اور تعمیری انداز میں مشغول ہونے" کا مطالبہ کیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے جنیوا دفتر کی ڈائریکٹر ہیلری پاور نے کونسل پر زور دیا کہ وہ " چین میں بڑے پیمانے پر حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے، بشمول سنکیانگ میں،" اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یہ مطالبہ "تمام خطوں سے سینکڑوں دیگر این جی اوز اور اقوامِ متحدہ کے متعدد ماہرین کا ہے"۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنیس کالمارڈ نے ترک سے مطالبہ کیا کہ وہ کھل کر سنکیانگ کی رپورٹ کی پشت پناہی کریں۔

ان کی تقریر سے قبل، انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ترک کا "اندازہ ان کے کام اور سنکیانگ کے لوگوں کے ساتھ وابستگی اور چین سے نمٹنے میں ان کی ہمت کی بنیاد پر لگایا جائے گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500