سفارتکاری

ایران کے ساتھ چین کے خفیہ معاہدے نے علاقائی شورش کا خوف پیدا کر دیا

پاکستان فارورڈ

ایرانی صدر حسن روحانی اور چینی صدر ژی جنپنگ 23 جنوری، 2016 کو تہران میں ایک استقبالی تقریب کے دوران دستوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان خفیہ معاہدے کو اب حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کا آغاز مبینہ طور پر اس ریاستی دورے کے دوران ہوا تھا۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

ایرانی صدر حسن روحانی اور چینی صدر ژی جنپنگ 23 جنوری، 2016 کو تہران میں ایک استقبالی تقریب کے دوران دستوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان خفیہ معاہدے کو اب حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کا آغاز مبینہ طور پر اس ریاستی دورے کے دوران ہوا تھا۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

ایران اور چین کی حکومتوں نے خاموشی کے ساتھ ایک بڑی معاشی اور سیکیورٹی پارٹنرشپ کا آغاز کیا ہے جو توانائی اور دیگر شعبوں میں اربوں ڈالرز کی چینی سرمایہ کاری کی راہیں کھولے گی۔

لیکن بیشتر مشاہدین کا کہنا ہے کہ 25 سالہ یہ معاہدہ نہ صرف خطے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دنیا بھر کے لیے کئی منفی اثرات کا باعث بنے گا، ایک کمزور اور تشویش کی حامل ایرانی حکومت – جوکہ معاشی انہدام کیوجہ سے ملک بھر میں مایوسی کی فضا کا سامنا کر رہی ہے اور اپنی موجودہ حکومت کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں انتہا پسندوں کی مدد اور ایٹمی ہتھیاروں کی موجودہ دوڑ کے باعث دنیا میں تنہا رہ جانے کے باعث– مکمل طور پر حوصلہ مند اور خود اعتماد چین کے رحم و کرم پر ہوگی۔

11 جولائی کو شائع ہونے والی نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ پارٹنرشپ، جس کی تفصیل تجویز کردہ معاہدے کے 18 صفحات پر مشتمل ہے، بینکنگ، ٹیلی مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز اور درجنوں دیگر پروجیکٹس میں چینی موجودگی کو کہیں زیادہ وسیع کردے گی۔ اس کے بدلے، چین اگلے 25 سالوں میں ایرانی تیل کی رسد کو باقاعدہ طور پر – اور ایک ایرانی عہدیدار اور تیل کے تاجر کے الفاظ میں، شدید طور پر بے قدر و قیمت بنا دے گا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ دستاویز گہرے فوجی ربط، مشترکہ تربیتوں اور مشقوں کی ضرورت، مشترکہ تحقیق اور ہتھیاروں کی ایجاد اور انٹیلیجنس کے اشتراک کی اطلاع دیتی ہے۔

اس معاہدے میں ایک خاص تشویشناک امر ایران میں پیش کردہ بندرگاہی سہولیات ہیں، جن میں اومان کے سمندر کے ساتھ دو بندرگاہیں شامل ہیں، جنہیں چینی بحری افواج کی جانب سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چین پہلے سے بحیرۂ ہند کے ساتھ ساتھ بندرگاہوں کا ایک سلسلہ تعمیر کرچکا ہے، جوکہ جنوبی چینی سمندر سے نہرِ سوئز تک ری فیولنگ اور ری سپلائی کا ایک کمان نما سلسلہ بناتا ہے۔ 2019 میں بحرالکاہل میں چینی جنگی بیڑوں کو دیکھا جاچکا ہے۔ [چینی نیوی]

اس معاہدے میں ایک خاص تشویشناک امر ایران میں پیش کردہ بندرگاہی سہولیات ہیں، جن میں اومان کے سمندر کے ساتھ دو بندرگاہیں شامل ہیں، جنہیں چینی بحری افواج کی جانب سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چین پہلے سے بحیرۂ ہند کے ساتھ ساتھ بندرگاہوں کا ایک سلسلہ تعمیر کرچکا ہے، جوکہ جنوبی چینی سمندر سے نہرِ سوئز تک ری فیولنگ اور ری سپلائی کا ایک کمان نما سلسلہ بناتا ہے۔ 2019 میں بحرالکاہل میں چینی جنگی بیڑوں کو دیکھا جاچکا ہے۔ [چینی نیوی]

ایران کے لیے چین کی جانب سے بڑھتی ہوئی معاونت کا مطلب ہوگا کہ بیجنگ ایران کی سپاه پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کو براہِ راست مدد فراہم کر رہا ہے، جوکہ ایرانی فوج کا ایک بازو ہے اور اسے سرکاری طور پر بطور دہشت گرد تنظیم مقرر کیا گیا ہے۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

ایران کے لیے چین کی جانب سے بڑھتی ہوئی معاونت کا مطلب ہوگا کہ بیجنگ ایران کی سپاه پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کو براہِ راست مدد فراہم کر رہا ہے، جوکہ ایرانی فوج کا ایک بازو ہے اور اسے سرکاری طور پر بطور دہشت گرد تنظیم مقرر کیا گیا ہے۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جاوید ظریف نے زور دے کر کہا کہ چین کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں ‘‘کچھ بھی خفیہ نہیں ہے’’؛ تاہم، اسے منظوری کے لیے اب تک ایرانی پارلیمان میں جمع نہیں کروایا گیا ہے نہ ہی عوامی طور پر اس کی تشہیر کی گئی ہے، اے ایف پی کے مطابق وہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کر رہے تھے کہ حکومت کیا کچھ بیجنگ کو فراہم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

جب سے سابقہ عوامی صدر محمود احمدی نژاد نے گزشتہ ماہ غیر ملک کے ساتھ ہونے والی گفت و شنید کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، تب سے ایران کے سماجی میڈیا پر چین کے ساتھ طے شدہ یہ ڈیل سب سے زیادہ بات کیا جانے والا موضوع بن چکا ہے۔

ایران کے سیاسی منظرنامے پر موجود نقادوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ حکومت معاشی بدحالی اور عالمی تنہائی کے اس کٹھن وقت میں ملک کو خفیہ طور پر ‘‘بیچ’’ رہی ہے۔

ظریف صاحب نے کہا، قوم کو اس وقت معلوم ہوگا ‘‘جب ملک فروخت ہوچکا ہوگا’’، انہوں نے مزید کہا کہ جنوری 2016 میں اُس وقت ان ارادوں کو عوام کے سامنے لے آیا گیا تھا جب صدر ژی جنپنگ نے تہران کا دورہ کیا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، دستاویز کا ابتدائی فقرہ کچھ یوں تھا، ‘‘دو قدیم تہذیبیں، تجارت، سیاست، ثقافت اور سیکیورٹی کے شعبوں کے دو پارٹنرز جن کا منظرنامہ ایک ہے، اور جن کے بہت سے باہمی دوطرفہ اور کثیر جہتی مفادات ایک دوسرے کے لیے ناگزیر پارٹنرز کا شاخسانہ بنیں گے۔’’

ایران کے قائدِ اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای، چین کے ساتھ اس ناگزیر اور اہم پارٹنرشپ کی حمایت کا اعلان عوامی سطح پر کرچکے ہیں۔

فوجی معاونت خاص طور پر خطرے کی گھنٹی ہے

معاہدے میں فوجی معاونت، تربیت اور انٹیلیجنس کے اشتراک نے خطرے کی ایک بڑی گھنٹی بجا دی ہے۔

ایران کے لیے چین کی جانب سے بڑھتی ہوئی معاونت کا مطلب ہوگا کہ بیجنگ ایران کی سپاه پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کو براہِ راست مدد فراہم کر رہا ہے، جوکہ ایرانی فوج کا ایک بازو ہے اور اسے سرکاری طور پر بطور دہشت گرد تنظیم مقرر کیا گیا ہے.

آئی آر جی سی کو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد مذہبی حکومت کا دفاع کرنا تھا، یہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے روایتی فوجی دستوں سے مختلف تھی۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر میں ہونے والے بہت سے دہشت گردی کے واقعات میں آئی آر جی سیکے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

آئی آر جی سی کی قدس فورس، جوکہ یروشلم کا عربی نام ہے، غیر ملکی مشنز میں خصوصیت رکھتی ہے، جو انتہا پسند گروہوں بشمول لبنان کی حزب اللہ اور فلسطینی گروپ حماس کو تربیت، پیسہ اور ہتھیار فراہم کرتی ہے۔

قدس فورس نے شامی حکومت کے دستوں کی معاونت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا جب شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔

اپنے علاقائی اثرورسوخ میں اضافے اور بالادستی کے قیام کی اپنی کوششوں میں، قدس فورس شام میں اپنے مفادات کی خاطر لڑنے کے لیے افغانی، پاکستانی، عراقی اور یمنی نوجوانوں کو بھرتی کرتی رہی ہے۔

فاطمیوں ڈویژناور زینبیون بریگیڈ، جن کے پاکستانی عناصر کو دیگر آئی آر جی سی سے ملحقہ فرقوں اور شامی حکومت کے ہمراہ لڑنے کے لیے شام بھیجے جانے سے قبل آئی آر جی سی سے تربیت اور ہتھیار مہیا کیے جاتے ہیں۔

چینی بندرگاہوں کا کمان کی مانند طویل سلسلہ

نیو یارک ٹائمز کا مضمون جسے یہاں مکمل طور پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کا کہنا ہے کہ نقادوں نے سابقہ چینی سرمایہ کاری پروجیکٹس کا تذکرہ کیا ہے جن کے باعث افریقی اور ایشیائی ممالک بیجنگ کے قرضے کے بوجھ تلے دب کر ان کے محکوم ہوچکے ہیں۔ خصوصاً اومان کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ دو بندرگاہوں سمیت ایران میں تجویز کردہ بندرگاہوں کی سہولیات کی موجودگی پر خدشات لاحق ہیں۔

ان بندرگاہوں میں سے ایک جاسک میں ہے، جوکہ پرشین گلف کے داخلی راستے پر، ہرمز کی آبی گزرگاہ سے ذرا سا باہر واقع ہے، جو چینیوں کو اُن سمندروں پر نظارے اور نگرانی کی اہم جگہ فراہم کرے گی جن کے ذریعے دنیا کے زیادہ تر تیل کی آمدورفت ہوتی ہے۔

چین پہلے ہی بحیرۂ ہند پر بندرگاہوں کا ایک سلسلہ تعمیر کرچکا ہے، جوکہ جنوبی چینی سمندر سے نہرِ سوئز تک ری فیولنگ اور ری سپلائی کا ایک کمان کی مانند طویل سلسلہ بناتا ہے۔ یہ بندرگاہیں تجارتی نوعیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر فوجی اہمیت بھی رکھتی ہیں جس سے چین کی تیزی سے بڑھتی بحری فوج کے لیے توسیع کی راہ ہموار ہوگی۔

امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے 13 جولائی بروز پیر کو کہا کہ امریکہ متنازعہ چینی سمندر میں بیجنگ کی جانب سے وسائل پر قبضے کی اس جستجو کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500