حقوقِ انسانی

چینی سپائی ویئر ایپس کے ذریعے مسلمانوں کو ہدف بناتے ہیں: محققین

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایک مسلمان خاتون اپنا موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ [فریڈرک جے براؤن/اے ایف پی]

چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایک مسلمان خاتون اپنا موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ [فریڈرک جے براؤن/اے ایف پی]

سائبر سیکیورٹی محققین کا کہنا ہے کہ انہیں یغور زبان کی ایپس میں چینی سپائی ویئر کے شواہد ملے ہیں جو چین میں اور بیرون ملک مقیم یغوروں کے مقام کا پتہ لگا سکتے ہیں اور ان کے کوائف حاصل کر سکتے ہیں۔

یغور بنیادی طور پر چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں ایک ترک مسلم اقلیت ہیں، جہاں اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہے.

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ چین کا یغوروں کے ساتھ سلوک نسل کشی کے مترادف ہے۔

سان فرانسسکو میں قائم سائبر سیکیورٹی فرم لُک آؤٹ کی 10 نومبر کی ایک رپورٹ کے مطابق، سنہ 2018 سے، یغور زبان کی متعدد اینڈرائیڈ ایپس چینی ریاست کے حمایت یافتہ ہیکر گروہوں سے منسلک سپائی ویئر کی دو اقسام سے متاثر پائی گئی ہیں۔

ان میں لغت، مذہبی ایپس، نقشے اور یہاں تک کہ واٹس ایپ کے چوری شدہ ورژن بھی شامل ہیں جو تھرڈ پارٹی سٹوروں پر دستیاب ہیں یا ٹیلی گرام پر یغور زبان کے چینلوں پر شیئر کیے گئے ہیں۔

وہ سرکاری گوگل پلے سٹور پر دستیاب نہیں تھے، جو چین میں بلاک ہے، جس کی وجہ سے چینی صارفین تھرڈ پارٹی ایپ سٹور استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپائی ویئر نے ہیکرز کو حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے کے قابل بنایا جس میں صارف کا مقام، رابطے، کال لاگ، ٹیکسٹ میسجز اور فائلیں شامل ہیں، اور وہ تصاویر بھی لے سکتے ہیں اور کالیں ریکارڈ بھی کر سکتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایپس کا استعمال مذہبی انتہاپسندی یا علیحدگی پسندی کے شواہد کا پتہ لگانے کے لیے کیا جا سکتا تھا، جس کے لیے سنکیانگ میں انسدادِ دہشت گردی کے ایک بڑے کریک ڈاؤن کے جزو کے طور پر یغوروں کو کئی دہائیوں سے قید کیا جاتا رہا ہے، جس کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑے پیمانے پر حراستی مہم کے مترادف ہے۔

یغور تارکینِ وطن کی بڑی آبادیاں بھی وسطی ایشیاء اور ترکی میں مقیم ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، "یہ مہم بنیادی طور پر چین میں یغوروں کو ہدف بناتی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم، ہمیں سنکیانگ سے باہر مسلمانوں اور یغوروں کو وسیع پیمانے پر ہدف بنانے کے شواہد ملے ہیں"۔

"ہم نے جن نمونوں کا تجزیہ کیا ان میں سے بہت سے ایسے دیگر ممالک کے نقشوں کی ایپس کے بھیس میں ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی ہے، جیسے ترکی یا افغانستان"۔

جاسوس ریاست

برسوں سے، چین سنکیانگ میں یغوروں کی بڑے پیمانے پر نگرانی میں مصروف ہے، صوبہ بھر میں نگرانی کا پلیٹ فارم بنا کر جو یغوروں کے ذاتی کوائف ان کے فونوں سے کھینچتا ہے اور چہرے کی شناخت کے ذریعے ان کی نقل و حرکت کا سراغ لگاتا ہے.

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر امریکہ کی جانب سے نگرانی کے آلات اور کیمرے بنانے والی کئی چینی فرموں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

دیارِ غیر میں مقیم یغوروں نے سنکیانگ میں چینی پولیس کی جانب سے سرحد پار سے نگرانی اور جبر کرنے کی کوششوں کے متعلق بتایا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ ایپس کے نمونے سنہ 2018 کے بعد کی تاریخ کے تھے، اور اس سال کے دوسرے نصف حصے میں سپائی ویئر کی ایک قسم سے متاثرہ ایپس کی اکثریت دریافت ہوئی تھی۔

لُک آؤٹ کے محققین نے لکھا، "بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، چینی ریاست کی جانب سے کام کرنے والے چینی دھمکی آمیز عناصر ممکنہ طور پر یغور زبان کے مواصلاتی پلیٹ فارموں کے ذریعے موبائل آلات استعمال کرنے والے یغوروں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے جاسوس سافٹ ویئر کی تقسیم جاری رکھیں گے"۔

اگست میں، اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار تھا، جس میں مغربی خطے میں یغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے کی تفصیل دی گئی تھی، اور کئی ایسے الزامات پر اقوام متحدہ کی مہر لگائی گئی تھی جو طویل عرصے سے فعالیت پسند گروہوں، مغربی ممالک اور جلا وطن یغور برادری کی طرف سے لگائے گئے تھے۔

رپورٹ میں یغور کے متبادل ہجے کا استعمال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "یغور اور دیگر مسلم اکثریتی گروہوں کے ارکان کی من مانی اور امتیازی حراست کی حد تک ... بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم" بن سکتے ہیں۔

الزامات میں اجتماعی قید، جبری مشقت، اور یغور ثقافتی اور اسلامی مقامات کی تباہی شامل ہیں۔ جبری نس بندی، منظم عصمت دری.

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، "حکومت کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی اور انسدادِ 'انتہا پسندی' کی حکمتِ عملیوں کے اطلاق کے تناظر میں ژوار [سنکیانگ یغور خود مختار علاقہ] میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں"۔

اس تخمینہ کاری نے چین کے نام نہاد حرفتی تعلیم و تربیت کے مراکز (وی ای ٹی سیز) میں رکھے گئے لوگوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا، "تشدد یا بد سلوکی کے نمونوں کے الزامات، بشمول جبری طبی علاج اور حراست کے منفی حالات، اتنے ہی قابلِ اعتبار ہیں، جتنے کہ جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500