حقوقِ انسانی

سنکیانگ میں حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار چین ہے: اقوام متحدہ کی رپورٹ

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

مسلم ایغور اقلیت کے ارکان 10 مئی کو ترکی کے شہر استنبول میں، ایک نیوز کانفرنس کے دوران چین میں زیر حراست اپنے رشتہ داروں کی تصاویر پیش کر رہے ہیں۔ [اوزان کوس/اے ایف پی]

مسلم ایغور اقلیت کے ارکان 10 مئی کو ترکی کے شہر استنبول میں، ایک نیوز کانفرنس کے دوران چین میں زیر حراست اپنے رشتہ داروں کی تصاویر پیش کر رہے ہیں۔ [اوزان کوس/اے ایف پی]

بیجنگ -- اقوام متحدہ (یو این) نے بدھ (31 اگست) کو دیر گئے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا کہ سنکیانگ کے علاقے میں بیجنگ کی طرف سے کیے جانے والے سیکورٹی کریک ڈاؤن کے دوران تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات "قابل اعتبار" ہیں۔

یہ رپورٹ جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، میں مغرب- بعید کے خطے میں اویغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے کی تفصیل دی گئی ہے، جس سے کئی ایسے الزامات پر اقوام متحدہ کی مہر ثبت ہو گئی ہے جو طویل عرصے سے سرگرم کارکن گروپوں، مغربی ممالک اور جلاوطن ایغور برادری کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں ایغور کے متبادل ہجے کا استعمال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "جس حد تک اویغور اور دیگر مسلم اکثریتی گروہوں کے ارکان کی ظالمانہ اور امتیازی حراست کی گئی ہے۔۔۔ یہ بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم" کا حصہ بن سکتی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر "فوری توجہ" دینی چاہیے۔

چین کے سنکیانگ کے علاقے ہوتن کے مضافات میں 13 مئی 2019 کو از سرِ نو تعلیم کے کیمپ، جہاں زیادہ تر مسلم نسلی اقلیتوں کو حراست میں رکھا جاتا ہے، کے قریب ایک ہائی سیکورٹی عمارت پر بنے ایک نگرانی کے مینار کی تصویر۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

چین کے سنکیانگ کے علاقے ہوتن کے مضافات میں 13 مئی 2019 کو از سرِ نو تعلیم کے کیمپ، جہاں زیادہ تر مسلم نسلی اقلیتوں کو حراست میں رکھا جاتا ہے، کے قریب ایک ہائی سیکورٹی عمارت پر بنے ایک نگرانی کے مینار کی تصویر۔ [گریگ بیکر/اے ایف پی]

بیجنگ پر الزام ہے کہ اس نے انتہا پسندی کے خلاف برسوں سے جاری کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر 10 لاکھ سے زیادہ ایغوروں اور مغرب - بعید کے علاقے کے باشندوں کو، جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے، حراستی مراکز اور جیلوں کے خفیہ نیٹ ورک میں حراست میں رکھا ہے۔

الزامات میں بڑے پیمانے پر قید، جبری مشقت، جبری نس بندی، منظم عصمت دری اور ایغور ثقافتی اور اسلامی مقامات کی تباہی شامل ہیں۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے کہا ہے کہ چین مسلم اقلیتی گروہوں کی "نسل کشی" کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی سبکدوش ہونے والی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے فیصلہ دیا کہ سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے (ایکس یو اے آر) کے اندر کی صورت حال کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

یہ رپورٹ تقریباً ایک سال سے تیار ہو رہی تھی، اور چین نے اس کو جاری کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔

بیچلٹ نے اپنی چار سالہ میعاد ختم ہونے سے قبل، اسے جاری کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا کیونکہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی میعاد اگست کے آخر میں ختم ہو گئی تھی -- اور انہوں نے اسے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں رات 11.47 پر جاری کیا جب کہ 13 منٹ باقی رہ گئے تھے۔

بیچلیٹ نے جمعرات کو اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا کہ "میں نے کہا تھا کہ میں اسے اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے شائع کر دوں گی اور میں سے ایسا ہی کیا ہے۔"

"کچھ ریاستوں کی طرف سے انسانی حقوق کے ان سنگین مسائل کو سیاسی رنگ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"

تشدد کے الزامات 'معتبر'

بیجنگ نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے، اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ سنکیانگ میں انتہا پسندی کو روکنے کے لیے پیشہ ورانہ مراکز چلا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "حکومت کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی اور انسدادِ 'انتہا پسندی' کی حکمت عملیوں کے اطلاق کے تناظر میں ایکس یو اے آر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔"

اس تشخیص نے چین کے نام نہاد ووکیشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سینٹرز (وی ای ٹی سیز) میں قید کیے گئے لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "تشدد یا بد سلوکی کے سلسلوں کے الزامات، جن میں جبری طبی علاج اور حراست کے دوران ناموافق حالات شامل ہیں، قابل اعتبار ہیں، ایسے ہی جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات بھی۔"

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا دفتر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ سی ای ٹی سیز سے کتنے لوگ متاثر ہوئے لیکن یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ نظام پورے خطے میں "وسیع پیمانے پر" کام کرتا ہے۔

وی ای ٹی سیز میں موجود لوگوں کی تعداد، کم از کم 2017 اور 2019 کے درمیان، "کافی زیادہ تھی اور جن میں اویغور اور دیگر بنیادی طور پر مسلم اقلیتی آبادی کا کافی زیادہ تناسب شامل تھا۔

رپورٹ میں "خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسیوں کے زبردستی نفاذ کے ذریعے تولیدی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معتبر اشارے ملنے" کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

جنیوا میں چین کے مشن نے اس رپورٹ کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے اور اس رپورٹ کے اجراء کے خلاف اپنی مخالفت کو برقرار رکھتے ہوئے، سنکیانگ کی صوبائی حکومت کی جانب سے 121 صفحات پر مشتمل ایک دفاعی دستاویز کو سانجھا کیا ہے۔

چین کے مشن نے مبینہ طور پر "غلط معلومات اور جھوٹ" کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ "سنکیانگ میں تمام نسلی گروہوں کے لوگ امن اور اطمینان کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔"

'پانسہ پلٹ دینے والی'

غیر سرکاری تنظیموں اور مہمات چلانے والے گروہوں نے کہا ہے کہ رپورٹ کو مزید کارروائی کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر کام کرنا چاہیے۔

ایغور کے سرگرم کارکنوں کی برادری کا ردعمل ملا جلا تھا، کچھ گروہوں نے اس کے کام کی تعریف کی جب کہ دوسروں کی خواہش تھی کہ اس میں سنکیانگ میں، بیجنگ کے اقدامات کی مذمت کی گئی ہوتی۔

ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عمر کنات نے کہا کہ "یہ رپورٹ ایغور بحران پر بین الاقوامی ردعمل کے لیے پانسہ پلٹ دینے والی ہے۔"

" چینی حکومت کے طرف سے سخت تردید کے باوجود، اقوام متحدہ نے اب باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ ہولناک جرائم ہو رہے ہیں۔"

عالمی اویغور کانگریس کے صدر ڈولکن عیسیٰ نے کہا کہ رپورٹ نے ممالک، کاروباری اداروں اور اقوام متحدہ کی طرف سے "بامعنی اور ٹھوس کارروائی" کی راہ ہموار کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "احتساب اب شروع ہوتا ہے۔"

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی چین کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن نے کہا کہ بڑے پیمانے پر حقوق کی خلاف ورزیوں کے "قابلِ مطعون" نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بیجنگ نے اس کی اشاعت کو روکنے کے لیے کیوں "دل و جان سے لڑائی کی"۔

ایچ آر ڈبلیو کی سبکدوش ہونے والی سربراہ کینتھ روتھ نے گزشتہ ہفتے کہا کہ انسانی حقوق کی مضبوط تحریکوں میں، آمرانہ حکومتوں کی طرف سے شہریوں کے حقوق پر کیے جانے والے جبر کی "بدصورت حقیقت" سے پردہ اٹھانے کی طاقت ہے۔

انہوں نے چین کی طرف سے ایغوروں پر کیے جانے والے جبر، یوکرین پر روس کے حملے، اور ان خطوں کا حوالہ دیتے ہوئے جہاں ان کے بقول کم توجہ دی جاتی ہے، جیسے ایتھوپیا میں ٹگرے اور یمن، کہا کہ "حکومتیں ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔"

لیکن مضبوط فعالیت کی بدولت، "حکومتوں کے لیے اپنی زیادتیوں کو چھپانا عملی طور پر ناممکن ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر ایک کے پاس اسمارٹ فون ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اور دکھاوے اور بدصورت حقیقت کے درمیان اس فرق کو نمایاں کر کے، ہم دباؤ پیدا کرتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500