حقوقِ انسانی

تحقیقات میں چین کی جانب سے کاروں کی تیاری میں مسلمان مزدوروں سے جبری مشقت لینے کا انکشاف

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

سنہ 2021 میں لی گئی اس فضائی تصویر میں چین کے شہر شینیانگ میں نئی تیار کردہ کاروں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

سنہ 2021 میں لی گئی اس فضائی تصویر میں چین کے شہر شینیانگ میں نئی تیار کردہ کاروں کی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

ماہرین تعلیم اور محققین نے چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد کاروں کی صنعت اور چین کے سنکیانگ علاقے میں یغوروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے درمیان "بڑے اور بڑھتے ہوئے روابط" کا انکشاف کیا ہے۔

شیفیلڈ، انگلینڈ میں شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیقات نے چین میں بین الاقوامی رسدی سلسلوں کو "جابرانہ پروگراموں اور منظم جبری مشقت کے اسیر" پایا ہے۔

چینی حکومت نے جان بوجھ کر کان کنی اور خام مال کی تیاری اور گاڑیوں کے پرزہ جات کی تیاری کو سنکیانگ میں منتقل کر دیا ہے، ٹیم نے یہ الزام عوامی طور پر دستیاب دستاویزات کا تجزیہ کرنے کے بعد عائد کیا ہے۔

اس ہفتے جاری ہونے والی ان کی رپورٹ میں کہا گیا، "اگر آپ نے پچھلے پانچ سالوں میں کوئی کار خریدی ہے، تو اس کے کچھ پرزے ممکنہ طور پر یغوروں اور دیگر ایسے افراد نے بنائے تھے جن سے چین میں جبری مشقت لی گئی تھی".

"عوامی طور پر دستیاب دستاویزات کے تجزیے سے ہڈ ڈیکلز اور کار کے فریموں سے لے کر انجن کی کیسنگ، اندرونی پرزہ جات اور الیکٹرانکس تک ہر چیز میں، کاروں کے مغربی برانڈوں اور یغوروں کے ساتھ بدسلوکی کے درمیان بڑے پیمانے پر اور پھیلتے ہوئے روابط کا انکشاف ہوا ہے".

اس نے بتایا کیا کہ ہر کاروں کے ہر بڑے برانڈ کو "یغور علاقے میں بدسلوکی سے منسلک کمپنیوں سے وسائل کی فراہمی کا زیادہ خطرہ ہے"۔

محققین نے کہا کہ بہت سے کار ساز انجانے میں یغور کے علاقے سے دھاتیں حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ دھات کی تجارت کرنے والی کمپنیاں سنکیانگ کے ڈھلائی گھروں میں کاروباری حصے کی مالک ہیں۔

ٹیم نے جبری مشقت کے قوانین کے کمزور نفاذ اور بیجنگ کے "ماحولیاتی معیارات پر آنکھیں بند کرنے" کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے صورتحال کے لیے رسدی سلسلے کے ساتھ منسلک کیا۔

بدسلوکیوں کی دعائے باجماعت

ابھی پچھلے ہی ماہ، سائبر سیکیورٹی کے محققین نے کہا تھا کہ انہیں یغور زبان کی ایپس میں چینی جاسوسی سافٹ ویئرز کے شواہد ملے ہیں جو چین اور بیرون ملک مقیم یغوروں کے مقام کا پتہ لگاسکتے ہیں اور ان کے کوائف اکٹھے کر سکتے ہیں.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاسوس سافٹ ویئر نے ہیکروں کو حساس کوائف اکٹھے کرنے کے قابل بنایا جس میں صارف کا مقام، رابطے، کال لاگ، تحریری پیغامات اور فائلیں شامل ہیں، اور وہ تصاویر بھی لے سکتے ہیں اور کالیں بھی ریکارڈ کر سکتے ہیں۔

برسوں سے، چین سنکیانگ میں یغوروں کی بڑے پیمانے پر نگرانی میں مصروف ہے، صوبہ بھر میں نگرانی کا پلیٹ فارم بنا کر جو یغوروں کا ذاتی ڈیٹا ان کے فون سے کھینچتا ہے اور چہرے کی شناخت کے ذریعے ان کی نقل و حرکت کا سراغ لگاتا ہے.

اگست میں، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس کا طویل عرصے سے انتظار تھا، جس میں مغربی خطے میں یغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے کی تفصیل دی گئی تھی، اور اقوام متحدہ کی جانب سے طویل عرصے سے لگائے گئے کئی الزامات پر مہر لگائی گئی تھی جو سرگرم گروہوں، مغربی اقوام اور جلاوطن یغور برادری کی جانب سے عائد کیے گئے تھے۔

رپورٹ میں یغور کے متبادل ہجے کا استعمال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "ایغور اور دیگر مسلم اکثریتی گروہوں کے ارکان کی من مانی اور امتیازی حراست کی حد تک ... بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم" بن سکتے ہیں۔

الزامات میں بڑے پیمانے پر قید، جبری مشقت، جبری نس بندی، منظم عصمت دری اور اور یغور ثقافتی اور اسلامی مقامات کی تباہی شامل ہیں.

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "حکومت کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی اور انسدادِ 'انتہاء پسندی' کی حکمت عملیوں کے اطلاق کے تناظر میں ژوار [سنکیانگ یغور خود مختار علاقہ] میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں"

اس تشخیص نے چین کے نام نہاد حرفتی تعلیمی و تربیتی مراکز (وی ای ٹی سیز) میں رکھے گئے لوگوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا، "تشدد یا بد سلوکی کے نمونوں کے الزامات، بشمول جبری طبی علاج اور حراست میں بُرے حالات، اتنے ہی قابلِ اعتبار ہیں، جتنے کہ جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500