پناہ گزین

ایرانیوں کے ہاتھوں افغان مہاجرین کی پٹائی دکھانے والی ویڈیوز کے بعد پُرتشدد مظاہرے شروع

از عمر اور اے ایف پی

درجنوں افغانوں نے 'ایران مردہ باد' کے نعرے لگاتے ہوئے 11 اپریل کو ہرات شہر میں ایرانی قونصل خانے کے باہر ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد احتجاج کیا جن میں مبینہ طور پر افغان مہاجرین کو ایرانیوں کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات -- ایرانی سرحدی محافظوں اور ایرانی ہجوم کے ہاتھوں ایران میں افغان مہاجرین کو پٹتے ہوئے دکھانے والی ویڈیوز نے سوموار اور منگل (11-12 اپریل) کے روز پورے افغانستان میں مشتعل مظاہروں کو جنم دیا ہے۔

منگل کے روز تقریباً 200 افغان وسطی کابل کے ایک چوک پر جمع ہوئے، جنہوں نے ایسے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ "ایران اپنے مظالم بند کرے" اور "ہم انصاف چاہتے ہیں"۔

سوموار کے روز، مظاہرین نے ہرات میں ایرانی قونصل خانے کی دیوار اور عمارت پر لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کیا، جس سے دیوار کے کچھ حصے اور اس کے حفاظتی کیمرے تباہ ہو گئے۔

’’ایران مردہ باد‘‘اور "ایران ایک قاتل ریاست ہے!"، کے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے ایرانی پرچم نذرِ آتش کر دیا اور قونصل خانے کے داخلی دروازے کو آگ لگا دی، جس سے ہرات شہر میں دھویں کے بادل آسمان پر پھیل گئے۔

11 اپریل کو ہرات میں افغان مظاہرین ایرانی قونصل خانے کے باہر ایران مخالف نعرے لگا رہے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

11 اپریل کو ہرات میں افغان مظاہرین ایرانی قونصل خانے کے باہر ایران مخالف نعرے لگا رہے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

11 اپریل کو ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے باہر ایرانی حکام کو ایران میں افغان پناہ گزینوں کو مارتے ہوئے دکھانے والی ویڈیوز پر احتجاج کرتے ہوئے افغانوں نے ایرانی پرچم نذرِ آتش کیا۔ [عمر/سلام ٹائمز]

11 اپریل کو ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے باہر ایرانی حکام کو ایران میں افغان پناہ گزینوں کو مارتے ہوئے دکھانے والی ویڈیوز پر احتجاج کرتے ہوئے افغانوں نے ایرانی پرچم نذرِ آتش کیا۔ [عمر/سلام ٹائمز]

اسی طرح سوموار کے روز ایران مخالف مظاہرے خوست اور کابل میں ایرانی سفارت خانے کے باہر ہوئے۔

ایرانی حکومت نے منگل کو اپنے تمام افغان مشنوں کو تا حکمِ ثانی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

کابل میں ایرانی سفارت خانے نے اتوار کے روز مار پیٹ کی ویڈیوز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ "بے بنیاد اور غلط" ہیں اور ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے۔

.لیکن بہت سے افغان تارکین وطن جنہوں نے ایرانی افواج یا آجروں کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا سامنا کیا ہے، ان کے لیے یہ تصاویر حقیقت بیان کرتی ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات میں سے، سنہ 2020 میں ایرانی حکام نے صوبہ یزد میں ایک کار میں سوار تین افغانوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور ان پر درجنوں افغان تارکین وطن کو زبردستی دریا میں پھینکنے کا الزام لگایا گیا، جہاں وہ ڈوب گئے.

.گزشتہ برس، درجنوں افغان لاشیں نمروز میں ایک سرحدی گزرگاہ پر واپس لائی گئیں، جن میں ایرانی فوجی ہسپتالوں میں رہنے کے بعد، بہت سے اعضائے رئیسہ غائب تھے.

اگرچہ یہ واضح نہیں تھا کہ تازہ ترین ویڈیوز کب ریکارڈ کی گئی تھیں، ایک میں ایرانی سرحدی محافظوں کو ایک کمرے میں افغان مہاجرین کو مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جب کہ دوسری فوٹیج میں ایرانیوں کے ایک گروپ کو ایران کی ایک عمارت میں پناہ گزینوں کو گھسیٹتے اور مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ایران، جہاں پچاس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں، میں گزشتہ اگست میں افغان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں داخل ہونے والے افغانوں کی تازہ آمد دیکھی گئی ہے۔

ایک غیر اسلامی جمہوریہ

ہرات میں مظاہرین میں سے ایک میر حمزہ خادم نے کہا، "ایرانی حکومت اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ جمہوریہ کافرستان ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "ایرانی افواج اور عام شہریوں نے ایران میں افغان پناہ گزینوں کے گھروں پر دھاوا بول کر ان کی رقم اور سامان لوٹ لیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو مارنے اور تشدد کرنے کے علاوہ، افواج نے ان کی عصمت دری بھی کی ہے۔"

خادم نے کہا، "ہم آج یہاں آئے ہیں اور ایرانیوں کی وجہ سے ہونے والے اپنے درد کو کم کرنے کے لیے ایرانی قونصل خانے پر پتھراؤ کیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین پر تشدد ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم اپنے لوگوں کے حقوق کا دفاع کریں گے۔"

مظاہرین میں سے ایک اور، ہمایوں کاکڑ نے کہا، "ایرانی سمجھتے ہیں کہ ان کے جرائم کا احتساب نہیں کیا جائے گا، لیکن افغان خاموش نہیں رہیں گے اور اپنا بدلہ لیں گے۔"

انہوں نے کہا، "ہم آج یہاں ایرانی قونصل خانے کے سامنے دنیا کو یہ بتانے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ افغان مہاجرین، دوسرے مہاجرین کی طرح، انسان ہیں اور انہیں رہنے اور کام کرنے کا حق ہونا چاہیے۔"

انہوں نے مزید کہا، "ایرانی حکومت اسلامی نہیں ہے اور اس نے ہمیشہ بے سہارا افغان مہاجرین کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے۔"

ایک سفاک ہمسایہ

.میڈیا رپورٹوں اور عینی شاہدین کے مطابق حال ہی میں ایران میں افغان مہاجرین پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

وجوہات میں افغانستان کی جانب سے گزشتہ سال کمال خان ڈیم کے افتتاح, کے بعد تہران کا غصہ شامل ہے جس سے ایران کو دریائے ہلمند کے پانی کا آزادانہ بہاؤ منقطع ہو گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر خون آلود اور شدید زخمی افغان نوجوانوں کی تصاویر گردش کر رہی ہیں۔ ان نوجوانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر ایرانی سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں نے چاقوؤں اور دیگر جان لیوا آلات سے حملہ کیا تھا۔

مظاہرین میں سے ایک، غلام فاروق، جس نے حال ہی میں ایران میں چھرا گھونپے جانے والے ایک خون آلود افغان مہاجر کی تصویر اٹھا رکھی تھی، نے کہا کہ "ایران میں افغان پناہ گزینوں کی پٹائی اور قتل کی وجہ سے غصے میں میرا خون کھول رہا ہے"۔

. انہوں نے سنہ 2020 میں بغداد میں مارے جانے والے سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کے سابق کمانڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، خون ایران کے لیے قیمتی ہے، لیکن ایران میں مارے جانے والے ہمارے بچوں کے خون کی ان کے لیے کوئی قیمت نہیں؟"

فاروق نے کہا، "ایران ایک اسلامی ملک نہیں ہے۔ افغان مہاجرین اور نوجوانوں کے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "ایران افغانوں کا قاتل ہے اور اس کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلنا چاہیے۔"

ایک اور احتجاجی جاوید کریمی نے کہا کہ برسوں سے، افغان ایران کو ایک مشترکہ زبان کے ساتھ ایک دوستانہ ہمسایہ سمجھتے رہے ہیں، لیکن ایران نے ہمیشہ افغانوں کے ساتھ دشمنی کی ہے۔

انہوں نے کہا، "افغان کام کرنے اور رزق کی تلاش میں ایران جاتے ہیں، لیکن ایران کی جابر حکومت اور عوام ان غریب محنت کشوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "ایرانی حکومت افغانستان کی دوست ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت میں وہ افغانوں کی دشمن ہے۔"

کریمی نے مطالبہ کیا، "دنیا کو افغانوں کے خلاف ایرانی جرائم پر خاموش نہیں رہنا چاہیے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لازماً لانا چاہیے۔"

معذرت خواہ فاطمیون جنگجو

ہرات میں مظاہرین میں سے ایک مظاہرہ کرنے والے نے فاطمیون ، آئی آر جی سی کی حمایت یافتہ ملیشیا جسے سلیمانی نے شام میں لڑنے کے لیے قائم کیا تھا، میں اپنے وقت کو یاد کیا۔

27 سالہ سید حسین حسینی نے کہا کہ وہ فاطمیون کے رکن کے طور پر شام میں پانچ سال تک "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے خلاف لڑا تھا۔

شام کی جنگ سے واپس آنے کے ایک سال بعد، ایرانی حکام نے حسینی کو تہران میں گرفتار کر کے گزشتہ ہفتے افغانستان بھیج دیا تھا۔

حسینی نے کہا، " آئی آر جی سی نے مجھ سے شام میں لڑنے کے بدلےایک گھر اور شہریت کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس نے اپنے وعدوں کو کبھی پورا نہیں کیا۔"

اس کے دو بھائی بھی شام میں لڑے تھے، جہاں وہ جنگ میں معذور ہو گئے تھے، اور اب ہرات میں گھر پر رہ رہے ہیں۔

حسینی نے کہا، "ایرانی حکومت نے مجھے شام میں لڑنے کے بدلے میں 10 سال کا پاسپورٹ جاری کیا، لیکن جب میں زیرِ حراست تھا تو ایرانی فوج نے میرا پاسپورٹ پھاڑ دیا اور مجھے زبردستی افغانستان بھیج دیا۔"

انہوں نے غصے سے کہا، ’’اگر ایرانی واقعی مرد ہیں اور اگر سلیمانی واقعی مرد تھا تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور میرے سامنے کھڑے ہوں۔ میں انہیں دکھاؤں گا کہ اصل مرد کون ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانیوں میں "میدان جنگ میں جانے اور لڑنے کی ہمت نہیں ہے" جبکہ وہ افغانوں اور دیگر لوگوں کو اگلے مورچوں پر بھیجتے ہیں۔

حسینی نے کہا کہ انہیں شام میں لڑنے جانے پر پچھتاوہ ہے اور ان کی خواہش ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے جھوٹے وعدوں سے کبھی بے وقوف نہ بنے ہوتے۔

حسینی کے ایک دوست اور فاطمیون کے ایک اور سابق فوجی نذیر احمد غلامی، جسے اسی وقت ایران سے نکال دیا گیا تھا، نے کہا کہ ایران کی حکومت اور عوام نے افغانوں کے خلاف وحشیانہ مہم شروع کی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا، "ایرانی فوجی فاطمیون اور غیر فاطمیون میں تمیز نہیں کرتے۔ وہ افغانوں کو جہاں بھی پاتے ہیں گرفتار کر لیتے ہیں اور بغیر کسی تفتیش کے افغانستان بھیج دیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ جب تک ایرانی حکومت کو فاطمیون کی ضرورت تھی، اس نے اس گروپ کو شام اور عراق میں لڑنے اور افغانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بھیجا، لیکن اب جب کہ فاطمیون کی مزید ضرورت نہیں رہی، تہران نے اپنے وعدے توڑ دیئے اور فاطمیون کے ارکان کو افغانستان بھیج دیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500