ہرات – 29 سالہ حسین علی سات ماہ قبل مشہد، ایران مین رہائش پذیر تھا، جب پولیس نے اسے گرفتار کیا۔
فاطمیون ڈویژن کا ایک رکن ہونے کے باوجود، افغانوں پر مشتمل اور سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک ملشیا، فاطمیون ڈویژن کا رکن ہونے کے باوجود علی کو حراست میں رکھا گیا، زدوکوب کیا گیا، لوٹا گیا اور پھر اسلام قلعہ سرحدی پھاٹک کے راستے ملک بدر کر کے افغانستان بھیج دیا گیا۔
علی شام میں فاطمیون کے ہمراہ لڑتے ہوئے دو برس کے دوران تین مرتبہ علاقۂ جنگ میں تعینات ہوا۔
علی، جو کہ اب ہرات شہر میں اپنے والدین کے ہمراہ رہتا ہے، نے کہا، ”میں تہران میں ایک عمارت میں اپنے دوستوں کے ہمراہ کام کر رہا تھا کہ ”[آئی آر جی سی] کے ارکان ہمارے پاس آئے اور ہمیں بتایا کہ 'دولتِ اسلامیۂ ایران و شام' (داعش) نے شام میں زہرا کے مزار پر حملہ کر دیا ہے۔“
آئی آر جی سی نے—لڑنے سے انکار کرنے پر ملک بدر کیے جانے کی دھمکی دینے کے بعد— علی کو بتایا کہ ایک شعیہ ہونے کے ناطے مزار کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے۔
اس نے کہا، ”انہوں نے ہمیں بتایا کہ شام میں ہماری زندگیاں خطرے میں ہوں گی۔ انہوں نے ہم سے شام میں جنگ سے واپس لوٹنے پر مستقل سکونت اور ہماری پسند کے کسی بھی ایرانی شہر میں ایک گھر کا وعدہ کیا۔“
علی نے کہا کہ اس نے شام میں قیام کے دوران کئی مرتبہ موت کا مشاہدہ کیا ۔
اس نے کہا، ”میرا دو سالہ مشن مکمل ہونے پر وہ مجھے واپس مشہد لے آئے۔ میں نے کئی ماہ تک اپنی سکونت اور گھر ملنے کا انتظار کیا۔ جب بھی میں پتہ کرنے آئی آر جی سی کے دفتر گیا، مجھے کوئی واضح جواب نہ ملا۔“
اس نے کہا، ”جب حکومتِ ایران نے مجھے حراست میں لے لیا اور جب میں نے یہ کہا کہ میں فاطمیون ڈویژن کا رکن ہوں تو انہوں نے نہ سنا، مجھے احساس ہوا کہ حکومتِ ایران کی جانب سے سب وعدے جھوٹے تھے۔“
بطرزِ غالاماں
آئی آر جی سی پر طویل عرصہ سے فاطمیون ڈویژن کے لیے بھرتیاں کرنے کی غرض سے جھوٹے وعدے کرنے کا الزام ہے۔
ایران سے حال ہی میں ملک بدر ہونے والے صوبہ لغمان کے ایک رہائشی قدرت اللہ محبت نے کہا، ”میں نے متعدد مواقع پر اس امر کا مشاہدہ کیا کہ ایرانی فوج فاطمیون ارکان کے ساتھ غلاموں کا سا برتاؤ کرتی ہے۔“
اس نے کہا، ”فاطمیون ارکان کی ایران میں اچھی زندگی نہیں، جو تنخواہ ان کو حکومتِ ایران ادا کرتی ہے اس سے بمشکل ان کا گزارا ہوتا ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ حکومتِ ایران فاطمیون ارکان کو گھر اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔“
محبت نے کہا، ”حکومتِ ایران اب بھی ایران میں افغان پناہ گزینوں کی فاطمیوں میں شمولیت اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ایرانی فوج کے ارکان زیادہ تر ہزارہ اور شعیہ نوجوانوں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے مذبہنی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔
ایران سے حال ہی میں ملک بدر ہونے والے بدخشاں صوبہ کے رہائشی، نذیر احمد فیضی نے کہا کہ حکومتِ ایران ایران میں افگان پناہ گزینوں کے خلاف بھی فاطمیون کا استعمال کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، ایران میں زیادہ تر افغان پناہ گزینوں کی شناخت اور گرفتاری فاطمیون کرتی ہے۔ میں نے متعدد مرتبہ یہ مشاہدہ کیا کہ فاطمیون سے منسلک افغان افغانوں کو گرفتار کرتے اور انہیں کیمپوں میں منتقل کرتے ہیں۔“
فیضی نے کہا، ”فاطمیون ارکان بھی افغان پناہ گزینوں سے اسی طرح برا سلوک کرتے ہیں جیسا کہ ایرانی سپاہی کرتے ہیں۔ انہیں ایسے ایرانیوں کو بھی، جو ملک کی حکومت کے خلاف بات کرتے ہیں اور افغان پناہ گزینوں کو دبانے کے لیے تربیت دی گئی ہے۔“
فیضی نے کہا کہ فاطمیون ارکان حکومتِ ایران کی جانب سے موصول ہونے والے ہر حکم کی اندھا دھند تعمیل کرتے ہیں۔
افغانستان کے لیے خطرات
مشاہدین کا کہنا ہے کہ یہ اندھی اطاعت فاطمیون کو بطورِ خاص افغانستان کے لیے خطرناک بناتی ہے۔
ہرات شہر کے ایک سیاسی تجزیہ کار عبدالقادر کمیل نے کہا، ”افغانستان میں طاقت و سلامتی کا ایک خلاء ہے اور فاطمیون کو استعمال کرتے ہوئے ایران اس کا استعمال اپنے معاشی، عسکری اور انٹیلی جنس مقاصد کے لیے نہایت آسانی سے کر سکتا ہے۔“
انہوں نے کہا، ”حکومتِ ایران کئی برسوں سے افغانستان کے مغربی خطوں میں آبپاشی اور پن بجلی کے ڈیموں کی تعمیر کو روکنے اور ان بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنے کے لیے شورشیوں کی معاونت کر رہی ہے۔“
”فاطمیون، ایران کے ایما پر افغانستان کے ۔۔۔ ڈیموں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔“
کمیل نے کہا کہ ملک میں حالیہ پیش رفت کے تناظر میں یہ عین ممکن ہے کہ فاطمیون ان خطوں میں تنازعات میں ملوث ہو جائے۔
غور میں ایک سول سوسائٹی فعالیت پسند خیر محمد عزیزی نے کہا کہ فاطمیون ڈویژن حکومتِ ایران کے لیے کرائے کے جنگجوؤں کا ایک گروہ ہے، جو جہاں چاہے انہیں تعینات کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتِ ایران نے سینکڑوں فاطمیون ارکان کو مسلح کر کے افغانستان کے تمام تر وسطی صوبوں میں خفیہ طور پر تعینات کر رکھا ہے۔ حکومتِ ایران جب چاہے ان جنگجوؤں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا، ”داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے علاوہ، فاطمیون افغانستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ گروہ مکمل طور پر حکومتِ ایران کے قابو میں ہے، اور یہ ہر اس کے خلاف لڑے گا جس سے لڑنے کو حکومتِ ایران کہے گی۔“