پناہ گزین

پانی کا مفت بہاؤ رکنے کے بعد ایران کی افغان مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی

از عمران

ایرانی سیکیورٹی فورسز نے بارہا کہا کہ وہ کمال خان ڈیم سے پانی کا بہاؤ روکے جانے کا بدلہ لینے کے لیے افغان مہاجرین کو ایران میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اب ان میں سے بہت سے لوگوں کو ایران سے زبردستی ملک بدر کر دیا گیا ہے اور وہ ہرات میں اقوام متحدہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں عارضی پناہ لے رہے ہیں۔ [عمران/سلام ٹائمز/سوشل میڈیا]

ہرات -- دریائے ہلمند سے افغانستان میں کمال خان ڈیم سے ملک میں پانی کا مفت بہاؤ رکنے کے بعد ایرانی حکام نے حالیہ ہفتوں میں افغان مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی میں اضافہ کر دیا ہے۔

صوبہ نمروز کے ضلع چہار برجک میں کمال خان ڈیم مارچ 2021 میں اپنے افتتاح کے بعد پہلی بار بھرا ہوا ہے۔ ڈیم پر کام سنہ 1971 میں شروع ہوا تھا۔

سنہ 1973 میں افغانستان اور ایران کے درمیان دریائے ہلمند کے پانی کے معاہدے کے تحت ایران کو دریائے ہلمند سے 26 مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

تاہم، کئی دہائیوں سے، ایران سالانہ اربوں مکعب میٹر مفت پانی حاصل کر رہا ہے، جو کہ معاہدے کے طے شدہ پانی سے کہیں زیادہ ہے۔

ایران سے ملک بدر کیے گئے افغان مہاجرین کو 9 فروری کو ہرات شہر میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمران/سلام ٹائمز]

ایران سے ملک بدر کیے گئے افغان مہاجرین کو 9 فروری کو ہرات شہر میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمران/سلام ٹائمز]

جارحیت، دشمنی

گواہان کا کہنا ہے کہ اب مفت پانی کا بہاؤ رک گیا ہے، اور ایرانی حکام اپنا غصہ افغان مہاجرین پر نکال رہے ہیں

صوبہ بادغیس کے ایک رہائشی جانداد ابراہیمی کے مطابق، ایرانی سیکیورٹی فورسز نے بارہا کہا ہے کہ وہ کمال خان ڈیم سے پانی کا بہاؤ روکنے کا بدلہ لینے کے لیے افغان مہاجرین کو ایران میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ابراہیمی کو حال ہی میں ایران سے جلاوطن کیا گیا تھا اور اب وہ ہرات شہر میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں۔

9 فروری کو انہوں نے کہا، "جب ایرانی فوجیوں نے مجھے کام پر گرفتار کیا، تو انہوں نے مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور مجھے اپنا سامان لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی، مجھے پناہ گزینوں کے حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا۔"

ان کا کہنا تھا، "جب میں کیمپ میں تھا، تو ایرانی فوج نے مجھے 48 گھنٹے تک مناسب کھانا نہیں دیا۔ اگرچہ میں شدید بھوکا تھا، انہوں نے مجھے خوفناک طریقے سے مارا پیٹا۔"

صوبہ غزنی کے ایک رہائشی ظفر خان جلالی نے کہا کہ جب سے کمال خان ڈیم پانی سے بھر گیا ہے ایرانی فوجی افغان پناہ گزینوں کے خلاف زیادہ جارحانہ اور مخالف ہو گئے ہیں۔

ایران میں ہمیشہ افغان مہاجرین کو اذیتیں دی جاتی رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا.

انہوں نے کہا، "ایرانی فوجی افغانوں کے گھروں میں بغیر اجازت داخل ہوتے ہیں، انہیں گرفتار کرتے ہیں، ان کی پٹائی کرتے ہیں اور انہیں افغانستان بھیج دیتے ہیں۔"

جلالی کا کہنا تھا کہ ایرانی آجروں نے افغان ملازمین کو خبردار کیا ہے کہ حکومت نے انہیں گرفتار کرنے اور ملک بدر کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور وہ ایرانی سیکورٹی فورسز سے چھپ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پناہ گزین کیمپ کے اندر اور راستے میں، ایرانی سپاہی افغانوں سے پیسے بٹورتے ہیں اور احتجاج کرنے والے ہر شخص کو مارتے ہیں۔

صوبہ کاپیسا کے رہائشی سید محمد اکرمی کیمپ میں مقیم ایک اور جلا وطن ہیں۔

ایرانی فوج نے اسے اپنے خاندان -- بیوی اور چار بچوں -- کو اپنے ساتھ افغانستان لانے کا وقت بھی نہیں دیا۔

انہوں نے کہا، "جب ایرانی فوجیوں نے مجھے گرفتار کیا میں اس وقت کام پر تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنے بیوی بچوں کو لے جانے کی اجازت دیں، لیکن انہوں نے مجھے لانے نہیں دیا۔"

اکرمی نے کہا، "ایرانی فوجیوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے بہت زور سے لات ماری ... کہ مجھے اپنے خاندان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب میرا خاندان ایران میں ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کہاں ہے۔"

ملک بدریوں میں اضافہ

تشدد حالیہ ہفتوں میں ملک بدریوں میں اضافے کے درمیان ہوا ہے۔

ہرات میں محکمہ مہاجرین و وطن واپسی کے صوبائی ڈائریکٹر عبدالحئی منیب کے مطابق، 24 جنوری سے پہلے، ایران روزانہ 1,500 سے 2,000 افغان مہاجرین کو اسلام قلعہ سرحدی گزرگاہ کے ذریعے ملک بدر کرتا تھا۔

8 فروری کو انہوں نے کہا کہ یہ تعداد روزانہ 4,000 سے 6,000 جلا وطن مہاجرین تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا، "ملک بدر ہونے والوں میں درجنوں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ انہیں ان کے گھر یا کام کی جگہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔"

منیب نے مزید کہا، "ہم نے ایران میں افغان مہاجرین کی مار پیٹ اور تشدد کی خوفناک رپورٹیں ریکارڈ کی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "صرف پچھلے پانچ مہینوں میں، 500 افغان مہاجرین، بشمول خواتین اور بچوں، کو افغانستان بھیجے جانے سے پہلے ایرانی پولیس نے برے طریقے سے مارا پیٹا۔"

"وہ اسلام قلعہ سرحدی گزرگاہ کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے، جہاں ہماری طبی ٹیموں نے ان کے زخموں کا علاج کیا جو انہیں ایرانیوں کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنے پر آئے تھے۔"

نمروز میں سرحدی کمانڈر محمد ہاشم حنظلہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ملک بدر کیے جانے والے مہاجرین کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، "ہمارے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ صوبہ نمروز میں روزانہ 3,000 سے زیادہ لوگ داخل ہوتے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "ان میں سے زیادہ تر پناہ گزینوں نے کئی ماہ تک ایران میں اپنی اُجرت وصول کیے بغیر کام کیا تھا -- ایرانی پولیس نے انہیں گرفتار کر کے زبردستی ملک بدر کر دیا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500