کابل -- ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت کی پہلی برسی کے قریب آنے پر، اس کی میراث ایران میں مفلوک الحال افغان مہاجرین کو اذیت دینا جاری رکھے ہوئے ہے۔
سلیمانی، ایران کی سپاه پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو ایف) کے سابق سربراہ، کی ہلاکت امریکی ڈرون حملے میں 3 جنوری کو بغداد میں ہوئی تھی، مگر فاطمیون ڈویژن، ایران حمایتی ملیشیا جس کی بنیاد اس نے رکھی تھی، زندہ ہے اور ناقص تربیت یافتہ، ناقص طور پر مسلح افغان رنگروٹوں کو شام اور دیگر پراکسی جنگوں کے محاذوں پر لڑنے کے لیے بھیج رہی ہے۔
ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ فاطمیون ایران میں کام کرنے والے شکستہ حال افغانوں کو پھانستی ہے جو اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں، اور اب مبصرین کا کہنا ہے کہ ملیشیا افغانستان اور خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
اگرچہ آئی آر جی سی فاطمیون کی جانب سے مرنے والوں کی تعداد جاری نہیں کرتی، لیکن غالباً ہزاروں افغان مہاجرین تہران کے لیے پراکسی جنگوں میں لڑتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔
واشنگٹن کے مقامی آئی آر جی سی پر نظر رکھنے والے علی الفونے نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو فروری میں، اپنے ذاتی ڈیٹابیس کی بنیاد پر بتایا تھا کہ جنوری 2012 سے ستمبر 2019 تک کوئی 917 افغان شہری شام میں مارے جا چکے تھے۔
بھرتی ہونے والے بہت سے افغانیوں نے ایرانی شہریت، مراعات اور ملیشیا کے ارکان کے طور پر وصول کردہ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ان کے خاندانوں کو ماہانہ ادائیگی کے وعدوں کے بدلے فاطمیون ڈویژن میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ہرات میں ایک سیاسی تجزیہ کار، عبدالقادر کامل نے کہا، "ایرانی حکام افغان نوجوانوں کو فاطمیون میں بھرتی کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہ نوجوان لوگ، اپنی مایوسی کی وجہ سے، تہران کے لیے مفید افرادی قوت ثابت ہوئے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "ایرانی حکومت فاطمیون کو ایک جنگی قوت کے طور پر رکھنا چاہتی ہے اور اسے کسی بھی ایسے ممالک میں استعمال کرتی ہے جہاں اسے لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا، فاطمیون کے ارکان کی بھرتی اور تربیت رکی نہیں ہے۔"
جلد ہی، فاطمیون -- ناصرف شام میں -- بلکہ اپنے ارکان کے وطن میں لڑ رہی ہو سکتی ہے۔
کامل کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت امریکی مفادات کو ناکام بنانے اور افغانستان میں اپنا سیاسی اور انٹیلیجنس اثر و رسوخ وسیع کرنے کے لیے افغانستان میں فاطمیون ڈویژن کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔
کمسن سپاہیوں کی بھرتی
وہ افغان جو ایران سے اپنے وطن واپس لوٹے ہیں ان مہاجرین کی کہانیاں سناتے ہیں جو فاطمیون ڈویژن کے ارکان بن گئے تھے۔
صوبہ ہلمند کے ایک مکین اور حال ہی میں ایران سے ملک بدر ہونے والے، محمد ادریس نے کہا کہ ایران کے صوبہ یزد میں فاطمیون کا بھرتی کا ایک مرکز نوجوان افغانوں کو ملیشیا میں بھرتی کی ترغیب دیتا ہے۔
درحقیقت، 19 دسمبر کو ایک مقامی افغان ٹی وی چینل پر ایک انٹرویو میں، ایرانی وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ فاطمیون "بہترین فوج ہیں جنہیں اگر افغان حکومت چاہے تو استعمال کر سکتی ہے۔"
فاطمیون کے لیے مستقبل کے ممکنہ مشن کا حوالہ دیتے ہوئے، کابل میں ایک عسکری امور کے تجزیہ کار، یوسف امین زازئی نے مارچ میں کہا تھا، "افغانوں کو ابھی بھی تشویش ہے کہ بین الاقوامی اتحادی افواج کے افغانستان سے نکلنے پر ایران افراتفری پیدا کر سکتا ہے۔"
انہوں نے کہا، "ایرانی افواج افغان نوجوانوں کے ساتھ ایک رہائشی پرمٹ اور ایران میں رہنے کے لیے جگہ دینے کا وعدہ کرتی ہیں۔ وہ ان [نوجوانوں] کے شام میں جنگ پر جانے کی صورت میں ان کے خاندانوں کی مستقل کفالت کرنے کا وعدہ بھی کرتی ہیں۔"
ادریس نے کہا کہ فاطمیون کے فوجی اگر تین ماہ شام میں خدمات انجام دیتے ہیں تو مبینہ طور پر ایک مبہم رہائشی پرمٹ ان کے لیے دستیاب ہو جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی آر جی سی جنگ میں مرنے کی صورت میں ملیشیا کے ارکان کو شام میں دفن کرنے کا وعدہ بھی کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "ایک نوجوان جو میرے ساتھ کام کرتا تھا جنگ لڑنے شام چلا گیا، مگر کبھی بھی واپس نہ آیا۔ انہوں [ایرانی حکام] نے مجھے جنگ پر شام جانے کے لیے کہا، مگر میں نے انکار کر دیا۔"
15 سالہ محمد سردار صوبہ بامیان کا رہائشی ہے۔ ایران سے اپنی حالیہ ملک بدری کے بعد سے، وہ ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ (یو این) کے ایک مہاجر کیمپ میں رہ رہا ہے۔
اس کا بھائی خوش قسمتی سے فاطمیون کے ساتھ دو خطرناک دوروں میں زندہ بچ گیا تھا، مگر آئی آر جی سی اس کے ساتھ اپنے وعدوں سے مکر گئی۔
16 دسمبر کو محمد سردار نے کہا کہ پچھلے سال، اس کا اس وقت 16 سالہ بھائی شام جنگ لڑنے گیا تھا اور تین ماہ بعد ایران واپس لوٹا تھا۔
سردار نے مزید کہا، "چند ماہ قبل، میرا بھائی حسین جسے دوبارہ شام میں تعینات کیا گیا تھا دو ماہ کے بعد واپس آیا تھا۔ اب وہ قم، ایران میں رہتا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "اگرچہ ایرانی حکومت نے میرے بھائی کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ شام میں اس کی خدمات کے عوض اسے ایک گھر، خاندان کے تمام افراد کے لیے ایران میں رہائشی پرمٹ اور بہت سارا پیسہ دے گی، اس نے اسے صرف ایک عارضی رہائشی پرمٹ دیا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اگرچہ ایرانی حکومت نے کہا تھا کہ وہ اس کے اہلِ خانہ کو ایران سے ملک بدر نہیں کرے گی، اس نے مجھے ملک بدر کر دیا۔"
سردار نے کہا کہ جو لوگ فاطمیون میں خدمات انجام دینا چاہتے ہیں انہیں پہلے 45 روزہ فوجی تربیت کے لیے تہران منتقل کیا جاتا ہے اور پھر شام میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایران سے ملک بدر کیے جانے والے، عبداللطیف جو اب ہرات شہر میں رہتے ہیں، نے کہا کہ فاطمیون کی صفوں کو بھرنے کے لیے، ایرانی حکام کبھی کبھار مہاجرت کے قانون کی خلاف ورزی سمیت، مختلف الزامات کے تحت غیر قانونی افغان مہاجرین کو حراست میں لے لیتے ہیں۔ وہ 1 بلین ایرانی ریال (اندازاً 4،281 ڈالر بلیک مارکیٹ شرح پر) کا مطالبہ کرتے ہیں جو کوئی بھی افغان مہاجر ادا نہیں کر سکتا۔
لطیف کا کہنا تھا کہ حکام ان افغانوں کو جن کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہوتا -- مطلب، سبھی کو -- ایک انتخاب کرنے کو کہتے ہیں کہ یا تو 25 سال قید کاٹو یا پھر لڑنے کے لیے شام جاؤ۔
انسانیت کے خلاف جرم
صوبہ ہرات میں افغانستان آزاد انسانی حقوق کمیشن کے علاقائی دفتر کے ڈائریکٹر، میرواعظ امینی نے کہا کہ بچوں کو جنگ پر بھیجنا اقوامِ متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "وہ ممالک اور حکومتیں جو جنگوں میں بچوں کو استعمال کرتے ہیں مستوجبِ سزا ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔"
امینی نے کہا کہ کوئی بھی شخص جو بچوں کو جنگوں میں شریک ہونے پر مجبور کرتا ہے جنگی جرم، نیز انسانیت کے خلاف جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواہ بچوں کو جنگ میں لڑنے کے لیے مجبور کیا جائے یا وہ سادگی میں یہ انتخاب کر لیں، ان کی عسکری خدمات بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں، اور مجرموں کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیئے۔
ہرات میں انسانی حقوق کے کارکن، محمد ادریس واحدی نے اتفاق کیا کہ افغان نوجوانوں اور بچوں کو شام میں استعمال کرنا ایک غیر انسانی فعل اور جرم ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "افغانستان کے زیادہ تر شہری جو فاطمیون میں شامل ہوئے ہیں کم عمر ہیں۔ وہ جنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اور وہ باآسانی مارے جا سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانونی اداروں کو چاہیئے کہ آئی آر جی سی سے کہیں کہ نوجوان افغانوں، بشمول نابالغوں کے ساتھ ایران میں بدسلوکی بند کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا، "ایران میں کم عمر [افغان] بچوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کیا جاتا ہے، اور ایرانی حکومت انہیں ان کے خاندانوں کو کچھ بھی بتائے بغیر جنگ پر بھیج دیتی ہے۔ یہ بلند ترین سطح کا فساد اور جرم ہے۔"
ہرات شہر میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن، محمد ایوب نے کہا، "افغان حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کو چاہیئے کہ فاطمیون کی جانب سے بچوں کی بھرتی کو روکیں تاکہ افغان دوسروں کے مقاصد پورے کرنے کے لیے مزید ان کے ہتھے نہ چڑھیں۔"