ہرات -- ایرانی فوجی، افغان مہاجرین کے خلاف خونریز حملے جاری رکھے ہوئے ہیں مگر ان کے خلاف تحقیقات کے مطالبات بڑھ رہے ہیں کیونکہ کچھ افغانوں نے ایرانی فوج پر ان کے اعضاء نکال لینے کا الزام لگایا ہے۔
یہ خبر ایسے وقت میں آئی ہے جب ایرانی حکام ایسے افغان شہریوں کو بھی داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر رہے ہیں جن کے پاس درست دستاویزات موجود ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں انہیں ملک بدر کر رہے ہیں جس سے وہ غیر یقینی اور خوف کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس دورانیے میں، ایران نے صرف نمروز گزرگاہ سے ہی، افغان مہاجرین کی تقریبا 100 لاشیں افغانستان کے حوالے کی ہیں۔ ان مہاجرین میں سے اکثریت، غربت اور غیریقینی سے بچنے اور کام کی تلاش میں، غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوئی تھی۔
ہلاک ہونے والے تمام افغان شہری -- جن میں بچے اور کم عمر بھی شامل تھے -- ایرانی فوجیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔
ایرانی حکام نے فروری کے پہلے ہفتے میں، تین دن کے عرصے میں نو مہاجرین کی لاشیں افغانستان بھیجیں۔ صوبہ نمروز کے سرحدی کمشنر محمد ہاشم حنظلہ نے منگل (8 فروری) کو بتایا کہ ان سب کو گولی مار دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ "روزانہ دو یا تین لاشیں ایران سے ملاک بارڈر کراسنگ کے ذریعے صوبہ نمروز پہنچتی ہیں۔ متاثرین کو زیادہ تر سینے یا سر میں گولی ماری گئی ہوتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی فوج زیادہ تر افغان مہاجرین کو انتہائی بے دردی سے مارتی پیٹتی ہے اور کسی عزت یا طبی علاج کے، افغانستان ملک بدر کر دیتی ہے"۔
حنظلہ نے کہا کہ متاثرین کی اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جو ایران یا ایران کے راستے ترکی یا دیگر یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔
نمروز ہسپتال کے نرسنگ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر غلام جیلانی شریفی نے کہا کہ 20 سے زائد افغان، جن میں سے سبھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں، کو ایران سے نکالے جانے کے بعد حال ہی میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
شریفی نے کہا کہ "زخمیوں کی اکثریت... ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئی ہے کیونکہ گولیوں سے ان کے اہم اعضاء کو نقصان پہنچا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ زخمی ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔
شریفی نے کہا کہ "ایران میں جن لوگوں کو گولی ماری جاتی ہے انہیں نازک حالت میں لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بہت سے زخمی خون کی کمی سے مر جاتے ہیں کیونکہ وہ وقت پر ہسپتال نہیں پہنچ پاتے ہیں۔"
اعضاء کی چوری
جن لوگوں کو گولی ماری گئی ان میں سے کچھ کا انجام اس سے بھی بدتر ہوا ہے۔
سہراب جس کی عمر 16سال تھی، کو ایرانی فورسز نے گولی مار دی جو اسے ایک فوجی ہسپتال لے گئے۔
اس کی والدہ نجیبہ، جنہوں نے اپنا پورا نام نہیں بتایا، کا کہنا ہے کہ وہاں لے جائے جانے کے بعد، ایرانی ڈاکٹروں نے اس کے اعضاء نکال لیے۔
سہراب کی لاش پیر کو ہرات پہنچی۔ اہل خانہ نے کہا کہ جب انہوں نے لاش وصول کی تو اس کے اعضاء غائب تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا بیٹا گولی لگنے کے بعد دو گھنٹے تک زندہ رہا اور ہسپتال میں زیر علاج تھا۔ "لیکن چونکہ وہ بالکل اکیلا تھا، اس لیے انہوں نے اسے مار ڈالا اور اس کے اعضاء کو نکال لیا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "سفاک ایرانی حکومت میرے بیٹے کی قاتل ہے۔ میں ان ظالموں کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ انہوں نے ایک بچے پر رحم نہیں کیا اور اسے قتل کرنے کے بعد اس کا پیٹ کاٹ دیا"۔
سہراب کے رشتہ دار مصطفی احمدی نے کہا کہ ایرانی حکومت اعضاء فروخت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ایران میں افغانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایرانی سیکورٹی فورسز بہت سے نوجوانوں کو ان کے اعضاء کی وجہ سے مار دیتی ہیں۔"
احمدی نے مزید کہا کہ "انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایرانی حکومت کے ان جرائم کے بارے میں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ اگر ایسے واقعات دوسرے ممالک میں ہوتے ہیں تو دنیا حیران رہ جاتی لیکن ایران میں روزانہ درجنوں افغانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے اور کسی کو پرواہ نہیں ہے۔"
نمروز کے ایک رہائشی عبدالحکیم، جن کا یہ پورا نام ہے، نے کہا کہ ایرانی حکومت افغان مہاجرین کو انسان نہیں سمجھتی۔
انہوں نے کہا کہ "بہت سے افغان اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ایران جانے پر مجبور ہیں لیکن ایرانی حکومت ان پر تشدد کرتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "میں بہت سے ایسے افغانوں کو جانتا ہوں جو کام کے لیے ایران گئے تھے لیکن ان کی لاشیں ہی افغانستان سے واپس آئی ہیں۔ ایرانی حکومت اپنے شہریوں میں پیوند کاری کے لیے ان افغانوں کے اعضاء نکالتی ہے۔"
ہولناک جرائم
ہرات سے تعلق رکھنے والے، انسانی حقوق کے ایک کارکن محمد یوسف علمی نے کہا کہ ایران میں افغان نوجوانوں کا قتل اور ان کے اعضاء کا استعمال افسوسناک ہے اور معروف بین الاقوامی اداروں کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ "انسانی حقوق کی اقدار اور بین الاقوامی کنونشنز کی بنیاد پر، ایرانی سیکورٹی فورسز کو افغان مہاجرین پر گولی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مہاجرین کی دنیا بھر میں مدد کی جاتی ہے۔ اگر وہ غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کرتے ہیں، تو انہیں گرفتار کر کے ان کے آبائی ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "مختلف ممالک کے کئی ہزار باشندے ہر سال یورپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں، لیکن یورپی ممالک کے فوجیوں نے کبھی بھی تارکین وطن پر گولی نہیں چلائی اور نہ ہی ان کے اعضاء کو چوری کیا ہے"۔
علمی نے کہا کہ برسوں سے، ایرانی حکومت تمام انسانی اقدار کے برخلاف افغانوں کو قتل اور تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے لیکن اس سے کبھی جوابدہی نہیں کی گئی ہے۔
نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن محمد نذیر حدافمند نے کہا کہ کوئی بھی افغان مہاجرین کے قتل کی تحقیقات نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ صورتحال میں، جہاں افغان شہری مکمل طور پر تنہا ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ صورت حال پر نظر رکھیں اور افغان مہاجرین کے خلاف ایران کے جرائم کو روکیں"۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز مہاجرین کے خلاف غیر انسانی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ "انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایرانی حکومت پر ظلم ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔"