رواداری

پاکستان نے کے پی میں دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتوں کے کیے امدادی فنڈ قائم کیا ہے

عدیل سید

ایک خاتون اکتوبر 2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ میں اسی سال ہونے والے جڑواں خودکش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا مانگ رہی ہے۔ [عدیل سید]

ایک خاتون اکتوبر 2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ میں اسی سال ہونے والے جڑواں خودکش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا مانگ رہی ہے۔ [عدیل سید]

پشاور -- پاکستانی حکام نے خیبر پختونخواہ (کے پی) میں ان اقلیتی برادریوں کے ارکان کے لیے 200 ملین روپے (1.3 ملین ڈالر) کا وقف فنڈ قائم کیا ہے جو دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔

اس کے اہل افراد میں دہشت گردانہ حملوں میں بچ جانے والے زخمی افراد اور ان افراد کے اہلِ خانہ شامل ہیں جو ہلاک ہو گئے ہیں۔

وفاقی اور کے پی حکومت نے اقلیتی متاثرینِ دہشت گردی کی بحالی کا وقف فنڈ قائم کیا ہے۔ یہ بات کے پی کی صوبائی اسمبلی کے ایک رکن وزیر زادہ نے کہی جو کہ کے پی کے وزیراعلی کے لیے اقلیتی امور کے خصوصی معاون بھی ہیں۔

انہوں نے 10 نومبر کو کہا کہ دونوں حکومتوں نے اس فنڈ کے لیے فی کس 100 ملین روپے (626,000 ڈالر) دیے ہیں۔

اکتوبر 2013 میں ایک سوگوار آل سینٹس چرچ میں شمع جلا رہا ہے تاکہ ستمبر 2013 میں چرچ پر ہونے والے حملے کے متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔ اس حملے میں 127 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ [عدیل سید]

اکتوبر 2013 میں ایک سوگوار آل سینٹس چرچ میں شمع جلا رہا ہے تاکہ ستمبر 2013 میں چرچ پر ہونے والے حملے کے متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔ اس حملے میں 127 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ [عدیل سید]

یہ وقف، پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ پر ہونے والے جڑواں خوکش دھماکوں کے متاثرین کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کا حکم دینے کے بعد قائم کیا گیا ہے۔

ان دھماکوں میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے جس کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ذیلی شاخ جنداللہ نے قبول کی تھی۔

زادہ جو کہ چترال ڈسٹرکٹ کی اقلیتی کالاش برادری سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا کہ "میں نے اس فنڈ کو جاری کرنے میں ذاتی دلچسپی لی اور آخرکار میں کامیاب ہو گیا"۔

کے پی کی کابینہ نے اس فنڈ کی منظوری دی۔ یہ صوبائی اسمبلی کی طرف سے منظوری کے ایک ماہ کے بعد میسر ہو جائے گا۔

مزید فنڈز کے لیے ایک کیس

زادہ نے کہا کہ آل سینٹس چرچ میں ہونے والے دھماکے کے متاثرین اور اس کے ساتھ ہی دوسرے دھماکوں کے متاثرین جن کا نشانہ اقلیتی گروہوں کو بنایا گیا تھا، اس فنڈ سے مستفید ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وصول کنندگان اپنے معاوضہ کو تعلیمی اخراجات، طبی علاج اور دیگر اخرجات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے پاس اقلیتی برادری کے تمام ارکان کا ریکارڈ ہے جو دہشت گردی کے واقعات سے متاثر ہوئے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین اوقاف، حج، مذہبی و اقلیتی امور کے شعبہ سے رابطہ کر کے اس فنڈ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

ایک مذہبی عالم اور آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیرمین ہارون سیراب دیال نے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اٹھائے جانے والے اس قدم کی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ "میرے پاس اس پیش رفت پر شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں جو اقلیتی برادری کی بہتری کے مقصد سے کی گئی ہے"۔

سیراب دیال نے کہا کہ اقلیتی برادریوں کی مدد کے لیے فنڈ "ایک مثبت قدم" ہے مگر اس میں قابلِ قدر اضافہ لازمی ہے کیونکہ صرف کے پی میں ہی 500,000 سے زیادہ اقلیتی برادری کے ارکان موجود ہیں۔

انہوں نے فنڈز کی مناسب تقسیم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ افراد سب سے پہلے فائدہ اٹھا سکیں جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علاوہ ازیں وفاقی حکومت کو اقلیتی برادریوں کے ہزاروں بے روزگار افراد کو ملازمت کے مواقع بھی فراہم کرنے چاہیں۔

مسیحی برادری کے ایک نمائندے اور پاکستان اقلیتی اتحاد کونسل کی کے پی شاخ کے صدر اگسٹن جیکب نے کہا کہ اس فنڈ کا قیام "آل سینٹس چرچ کے تباہ کن بم دھماکے کے بعد مسیحی برادری کا مطالبہ" تھا۔

انہوں نے کہا کہ "اگر فنڈ کو مناسب طریقے سے تقسیم کیا جائے تو یہ ان زخموں کو بھر دے گا جو آل سینٹس چرچ کے بم دھماکے میں متاثرین کو لگے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ مسیحی برادری کو جڑواں دھماکوں سے ہونے والے نقصان اور تباہی کے وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہزاروں بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور شدید زخمی بچ جانے والے متاثرین پیدا ہوئے ہیں۔

اگسٹن نے کہا کہ اگرچہ کے پی کی حکومت کو اس فنڈ کے لیے مزید رقم مختص کرنی چاہیے تاکہ متاثرین کی مناسب بحالی کو یقینی بنایا جا سکے مگر اقلیتی برادری اس فنڈ کے آغاز کو خوش آمدید کہتی ہے اور امید کرتی ہے کہ آخرکار اس فنڈ میں اضافہ ہو جائے گا۔

معمول کی طرف واپسی کا احساس

سکھ برادری کے بہت سے ارکان ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں اور ان کے اہلِ خاندان کو بحالی اور معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا احساس دلانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ یہ بات سکھ برادری کے ایک رکن اور پشاور کے بھائی جوگا سنگھ اسکول کے ایک استاد جتتندر سکھندر نے کہی۔

انہوں نے کہا کہ وقف کا قیام اقلیتی برادری کے ان ارکان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی تشویش کی عکاسی کرتا ہے جو دہشت گردانہ اور انتہاپسندانہ حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سکھ برادری اس پہلکاری کا مکمل خیرمقدم کرتی ہے اور ان اداروں اور افراد کی شکرگزار ہے جنہوں نے اقلیتی برادری کے ارکان کی مدد کرنے کے مقصد سے اس کے قیام کے لیے کام کیا۔

ایک مذہبی عالم، بین المذہبی ہم آہنگی کے سرگرم کارکن اور پشاور یونیورسٹی کے شیخ زید اسلامک سینٹر کے سابقہ ڈائریکٹر عبدل غفور نے کہا کہ "یہ حکومت کی طرف سے اٹھایا جانے والا انتہائی خوش آئند قدم ہے اور اس سے ہمارے معاشرے میں بین المذہبی ہم آہنگی کے پیغام کی تشہیر ہو گی"۔

انہوں نے کہا کہ وقف کے قیام سے انتہاپسند عناصر کی طرف سے پھیلائے جانے والے اختلاف کے پیغام کا خاتمہ ہو گا۔

غفور نے کہا کہ اس پہلکاری سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی لوگ اور حکومت امن سے محبت کرتے ہیں، اقلیتی برادریوں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں اپنے برابر تصور کرتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500