سیاست

پاکستان کی مذہبی اقلیتیں سیاسی خود مختاری کے راستے پر

محمد شکیل

رادیش سنگھ ٹونی (بائیں)، جنہوں نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کی ایک آزاد نشست کے لیے انتخاب لڑا، 3 جولائی کو پشاور میں پمفلٹ تقسیم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

رادیش سنگھ ٹونی (بائیں)، جنہوں نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کی ایک آزاد نشست کے لیے انتخاب لڑا، 3 جولائی کو پشاور میں پمفلٹ تقسیم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ]عبدل مجید/ اے ایف پی[

پشاور -- مشاہدین کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیت -- ایک ایسا گروہ جو طویل عرصے سے اپنے آپ کو مسترد شدہ محسوس کرتا رہا ہے -- کے ایک رکن کا پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے حالیہ انتخاب، نظر انداز کیے جانے والے گروہوں کو ملکی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کیے جانے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔

جولائی میں، کمار ملانی کو صوبہ سندھ کے حلقہ این اے - 222 (تھرپارکر- II) سے قومی اسمبلی (این اے) کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار تھے۔ وہ ایسے اولین پاکستانی ہندؤ ہیں جو اقلیتیوں کے لیے مختص نشستوں کے علاوہ، این اے کی نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اگست میں حلف اٹھایا۔

پاکستان کی آبادی میں سے تقریبا 5 فیصد مسلمان نہیں ہیں۔

ملانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ این اے کی نشست کے لیے اقلیتی رکن کا انتخاب، ان لوگوں کی "سوچ کا اظہار کرتا ہے جنہوں نےمذہبی عقائد میں فرق ہونے کے باوجود، پاکستان کے معاشرے میں مختلف طبقات کی موجودگی کو تسلیم کرنے میں آمادگی دکھائی ہے۔

نامعلوم تاریخ کی تصویر میں نظر آنے والے پاکستانی ہندؤ مہیش کمار ملانی، نے جولائی کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتی ہے۔ ان کی کامیابی ملک میں مذہبی اقلیتیوں کی خودمختاری میں اضافے کی طرف ایک راستے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ]بہ شکریہ مہیش کمار ملانی[

نامعلوم تاریخ کی تصویر میں نظر آنے والے پاکستانی ہندؤ مہیش کمار ملانی، نے جولائی کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتی ہے۔ ان کی کامیابی ملک میں مذہبی اقلیتیوں کی خودمختاری میں اضافے کی طرف ایک راستے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ]بہ شکریہ مہیش کمار ملانی[

انہوں نے کہا کہ "پاکستان کی اکثریت نے اقلیتیوں کے بارے میں زیادہ وسیع زاویہ نگاہ بنا لیا ہے جو کہ حوصلہ افزاء ہے اور اس سے ایک دوسرے کے لیے باہمی احترام اور برداشت پیدا ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت میں خدمات انجام دینے والی اقلیتیں، نظر انداز کیے جانے والے مذہبی گروہوں کو خودمختار بنانے اور مرکزی دھارے میں شامل کیے جانے کی راہ ہموار کریں گی اور ان کی ترقی اور نشوونما کے لیے نئے مواقع کھولیں گی۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے ووٹ دہندگان میں سے اقلیتی اور اکثریتی دونوں گروہوں سے ووٹ ملے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ووٹ دہندگان نے اپنے حق کا استعمال کیا اور سماجی و مذہبی عَدمِ مُشابہات کی رکاوٹوں کو پھلانگا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اقلیتی مذہبی گروہ کے رکن کی فتح نے پاکستان کی ایک مثبت تصویر پیش کی ہے -- کہ اس کے شہری ایک زیادہ خوش آئند طریقہِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اوربرداشت اور مل جل کر رہنے کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کا احترام کر رہے ہیں۔

ملانی نے کہا کہ "پارلیمنٹ میں میرا داخلہ، صرف ایک واحد اقلیتی گروہ کی فتح نہیں ہے بلکہ ان سب مذہبی گروہوں کی کامیابی ہے جو معاشرے میں حثیت یا عہدے سے قطعہ نظر ہر کسی کو خودمختار بنانے میں یقین رکھتے ہیں۔

کامیابی کے لیے اقلیتوں کو خودمختار بنانا

کیلاش افراد -- جو ایک چھوٹا سا نسلی-مذہبی گروہ ہے -- کے حقوق کے لیے کام کرنے والے، سماجی سرگرم کارکن وزیر زادہ جو کہ خیبرپختونخواہ (کے پی) اسمبلی کے ایک رکن بھی ہیں، نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو خودمختار بنانے سے ان کے سماجی-معاشی مقام کو اونچا کرنے میں مدد ملے گی جبکہ سیاسی عمل میں ان کی شمولیت اس بات کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہو گی کہ وہ اپنے مفادات اور حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

زادہ جو کہ چترال، کے پی کی رمبور وادی سے آئے ہیں، نے اقلیتوں کے لیے مختص ایک نشست کے لیے ہونے والے مقابلے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اقلیتوں کو ایک ایسا ماحول مہیا کیا جانا چاہیے جو انہیں ان کی جائز دلچسپیوں کو پورا کرنے کے قابل بنائے۔ یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب ان کے پاس ہمارے متنوع معاشرے میں خودمختاری اور تعاملات کے کافی زیادہ امکانات موجود ہوں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "آئین اقلیتیوں کو وہی حقوق اور قانونی مقام دیتا ہے جو پاکستان کی اکثریتی برادری کے ارکان کو حاصل ہے اور اگر ہمیں بڑے گروہوں کی نمائںدگی کرنے کا موقع دیا جائے تو معاشرے پر اس کے اثرات ڈرامائی اور بہت دور تک ہوں گے"۔

آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیرمین، ہارون سراب دیال جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے کہا کہ ووٹ دہندگان کی طرف سے اقلیتی گروہ کے رکن پر این اے میں ان کی نمائندگی کرنے پر اعتبار کرنا تاریخی اور پاکستان کی سیاست میں ایک نئی پیش رفت ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اگر مذہبی گروہوں کو اعتماد کی تعمیر والے اقدامات جیسے کہ اقلیتوں کو اکثریت کی نمائںدگی کرنے دینا، سے ایک دوسرے کے قریب لایا جائے تو باہمی احترام اور قبولیت کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی اقلیتوں کی خودمختاری کے امکانات میں بھی اضافہ ہو گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500