مذہب

پاکستانی ہندوؤں کی طرف سے دیوالی کا کھلے عام جشن بڑھتی ہوئی برداشت کا عکاس

محمد شکیل

پاکستان کی ہندو برادری کے ارکان 27 اکتوبر کو پشاور میں دیوالی کا جشن منا رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پاکستان کی ہندو برادری کے ارکان 27 اکتوبر کو پشاور میں دیوالی کا جشن منا رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پشاور -- پاکستان بھر میں، ہندو برادری کے ارکان کی طرف سے، دیوالی جو کہ "روشنیوں کا تہوار" بھی کہلاتا ہے، کی پرجوش تقریبات کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ امن کی واپسی نے مذہبی اقلیتی گروہوں کو اپنے عقائد پر کھلم کھلا عمل کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔

ہندو مذہب کے پیروکاروں نے اپنے اعلی ترین کپڑے پہنے، مذہبی رسومات سرانجام دیں اور 27 اکتوبر کو شروع ہونے والے اس کئی روزہ جشن پر اپنے گھروں اور مندروں میں چراغ یا دیے جلائے۔

آل پاکستان ہندوز رائٹس موومنٹ کے چیرمین ہارون سربدیال نے 5 نومبر کو کہا کہ "امن کی بحالی کے بعد، ایسی تقریبات کی بحالی اور ان کے انعقاد نے دنیا میں ملک کے ایک نرم تصور کو فروغ دیا ہے اور اس پیغام کو پھیلایا ہے کہ اقلیتیں اپنے مذہب پر عمل کرنے اور برابری کے حقوق، جو ملک کے آئین میں دیے گئے ہیں، سے لطف اندوز ہونے کے لیے آزاد ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم امن قائم کرنے میں اپنی سیکورٹی فورسز کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کو سلام کرتے ہیں اور ہم اپنی حکومت کی طرف سے روایات اور رسوم کے مطابق دیوالی منانے کے لیے پرامن ماحول مہیا کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہیں"۔

پاکستان کی ہندو برادری کے ارکان 27 اکتوبر کو پشاور میں دیوالی کا جشن منا رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پاکستان کی ہندو برادری کے ارکان 27 اکتوبر کو پشاور میں دیوالی کا جشن منا رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پاکستان کی ہندو برادری کے ارکان 27 اکتوبر کو پشاور میں دیوالی کا جشن منا رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پاکستان کی ہندو برادری کے ارکان 27 اکتوبر کو پشاور میں دیوالی کا جشن منا رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

سربدیال نے کہا کہ اقلیتوں کی طرف سے جشن میں شامل ہونا ایک اچھی علامت ہے اور اس سے حکومت پر ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایسی تقریبات کا جشن منانے سے اس بیانیے کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی کہ اقلیتیں اور اکثریتی آبادی عسکریت پسندی کے خلاف متحد ہے اور مادرِ وطن کو ہر قسم کے حالات میں، انتہاپسندی اور جبر سے پاک کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے"۔

ہم آہنگی اور باہمی اعتماد

سربدیال نے کہا کہ "ہندو برادری کے ایک نمائندہ ہونے کے ناطے، مجھے یقین ہے کہ ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کا ماحول ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو گا اور ہمیں مستقبل میں بھی، پرامن طریقے سے اپنی تقریبات منانے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے"۔

پشاور کے علاقے گورگرتھری کے ہندو گوراکنتھ مندر کے نگہبانوں میں سے ایک، رامیش گولو نے کہا کہ اقلیتی برادری کے ارکان نے حال ہی میں اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ ایسی تقریبات میں شرکت کرنا شروع کی ہے اور ایسا کرنا ماضی میں ناقابلِ تصور تھا کیونکہ انہیں انتہاپسندوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ "جب صورتِ حال اقلیتوں کے لیے مناسب نہیں تھی تو خواتین اور بچوں کا تناسب بہت کم تھا مگر اب ایسی تقریبات میں ان کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے جو کہ سیکورٹی کی صورتِ حال میں بہتری کی طرف اشارہ کرتا ہے"۔

گولو نے کہا کہ "حکومت اقلیتوں کی مدد بھی کر رہی ہے تاکہ وہ آزادی سے اپنے مذہب اور روایات کے مطابق، مذہبی تقریبات اور جشن منا سکیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال کے آغاز میں، نشتر ہال جو کہ پشاور میں ایک ثقافت و موسیقی کا مرکز ہے، میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں اقلیتی اور اکثریتی برادری دونوں کے ارکان نے شرکت کی تھی۔

گولو نے کہا کہ "ایسی تقریبات کے انعقاد سے ہمارے متنوع معاشروں میں تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور مل جل کر رہنے کو فروغ حاصل ہو گا اور عدم اعتماد کے خطرے کو مٹایا جا سکے گا"۔

تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی، ستمبر 2013 میں آل سینٹز چرچ پر ہونے والے ہلاکت خیز حملےپر پریشان ہو گئے تھے جس میں 104 افراد جن میں مسیحی چرچ کے 87 ارکان بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ بات نظیر بھٹی نے کہی جو کہ حملے کے وقت مقامی مشنری اسکول کے انتظامی سیکشن میں ملازم تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس حملے سے ملک کی اقلیتوں میں خوف بیٹھ گیا مگر سیکورٹی کی بہتر ہوتی ہوئی صورتِ حال ان برادریوں کے ارکان کو ایک بار پھر سے اپنے مذہب کو کھلے عام منانے کے قابل بنا رہی ہے۔

بھٹی نے کہا کہ "حکومت اور سیکورٹی فورسز کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ سیکورٹی کی تسلی بخش صورتِ حال کی شکل میں نکلا ہے اور اب اقلیتیں آزاد ماحول میں اپنی تقریبات کو منانے میں محفوظ محسوس کرتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہم آہنگی اور برداشت سب کے لیے ہے جس میں سکھ ہندو قادیانی وغیرہ شامل ہیں ۔اگر نہیں شامل ہیں تو صرف مسلمان ہی شامل نہیں بشمول پوری دنیا کے ۔۔۔ واہ او بھولے مسلمان

جواب

آپکامضمون بہت ہی پسند آیا ہم اقلیت اپنے پیارے وطن پاکستان میں اپنے مزیبی تہواربلکل آزادی کے ساتھ مناتے ہیں اور اپنے مسلم برادری جو ہمارے ہمساے پڑوسی محلہ میں ساتھ رہتے ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ خوشیاں مناتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے جو بھی تہوار آتے ہیں وہ ہم سب کاہے جس طرح ہم اہک گھر ( خاندان ) کے لوگ ہیں

جواب