دہشتگردی

پاکستان میں شیعہ انقلاب کا بیج بونے کے ایرانی منصوبے پر عسکریت پسند رہنماء کا انتباہ

از عبدالغنی کاکڑ

7 اکتوبر کو شیعہ حضرات ایران میں اربعین مناتے ہوئے۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

7 اکتوبر کو شیعہ حضرات ایران میں اربعین مناتے ہوئے۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

کوئٹہ -- ایرانی عسکریت پسند گروہ جیش العدل کے چوٹی کے ایک رہنماء، عرفان شاہنوازی نے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایرانی حکومت پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں شیعہ انقلاب کا راستہ ہموار کرنے کے لیے عسکریت پسندی اور سیاسی مہمات کی کفالت کر رہی ہے۔

شاہنوازی نے کہا کہ خطے میں اپنے مفادات اور اثرورسوخ کو وسعت دینے کی کوشش میں تہران پاکستان کو بطور لانچنگ پیڈ استعمال کر رہا ہے.

30 ستمبر کو ان کا کہنا تھا، "ہمارے پاس معلومات ہیں کہ ۔۔۔ ایرانی حکومت پاکستان میں اپنے زیرِ کفالت حامیوں کے ذریعے اپنا انقلاب برآمد کرنے کے لیے بڑی جانفشانی سے کام کر رہی ہے۔ ہم ایرانی نظریئے کو اسلام کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ تہران کی پاکستان میں غیر یقینی کی صورتحال کو ہوا دینے کی کوششیں خطے کو عدم استحکام کا شکار بنا کر غالب آنے کے مجموعی منصوبے کا ایک حصہ ہیں۔

ایرانی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے ترجمان، بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیکارچی، 14 ستمبر کو تہران میں ایرانی فوجی کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

ایرانی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے ترجمان، بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیکارچی، 14 ستمبر کو تہران میں ایرانی فوجی کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

جیش العدل کے ارکان کو سنہ 2018 میں شائع ہونے والی ایک فوٹو میں دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

جیش العدل کے ارکان کو سنہ 2018 میں شائع ہونے والی ایک فوٹو میں دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

انہوں نے کہا، "اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ایرانی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی جزو ہے۔"

"ایران خطے میں ایرانی غلبہ قائم کرنے کے لیے اپنے زیرِ کفالت شیعہ عسکریت پسندوں کے ذریعے خطے کی سلامتی کے ساتھ کھیل رہا ہے۔"

شاہنوازی نے کہا، "ایران اپنے دوہرے معیار کے بھیس میں پاکستان کی دینی برادری کے جذبات کا غلط استعمال کرتا رہا ہے۔"

سنہ 2012 میں بنی، جیش العدل ایک سُنی تنظیم ہے جس نے جنوبی صوبہ سیستان-بلوچستان میں بم دھماکوں اور ایلیٹ ایرانی دستوں کے اغواء کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ سُنی مسلمانوں اور نسلی بلوچوں کے ساتھ ایرانی تعصب کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔

جولائی 2019 میں امریکہ نے جیش العدل کو بطور ایک دہشت گرد تنظیم کالعدم قرار دیا تھا۔

نفرت پھیلانا

شاہنوازی نے کہا کہ اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے تہران شیعہ برادری کا پاکستان میں نفوذ کرنے کا متلاشی ہے۔

"ہماری اطلاعات کے مطابق، پاکستان اور افغانستان میں بیشتر علماء ایرانی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔"

شاہنوازی نے کہا، "ایرانی حکومت پاکستان میں نفوذ کرنے اور پاکستانی شیعہ برادری کو بڑے پیمانے پر منظم کرنے کے لیے دینی جذبات کا غلط استعمال کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ جیش العدل ہمسایہ ممالک اور وطن دونوں جگہ بغاوتوں کو ہوا دینے کی تہرانی کوششوں کے خلاف لڑے گی۔

انہوں نے کہا، "ہمارا ماننا ہے کہ وہی پالیسی جو ایران نے عراق اور یمن میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے استعمال کی ہے اب پاکستان اور افغانستان کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ شیعہ-سُنی گروہوں کے مابین نفرت پھیلانا، سیاسی بحرانوں پر اثرانداز ہونا، اور مسلح ملیشیاؤں کے ذریعے بدامنی پھیلانا ایرانی ایجنڈے کا حصہ ہے۔"

ایرانی حکومت دو علاقائی شیعہ عسکری گروہوں پاکستانی زینبیون بریگیڈ اور افغان فاطمیون ڈویژنکو سرمایہ فراہم کرتی ہے اور ہدایات دیتی ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب، "ایرانی شیعہ حکمرانوں کی جانب سے ایران میں لاکھوں سُنیوں کی زندگیاں مفلوک الحال بنا دی گئی ہیں ۔۔۔ ہم جابروں کے خلاف ہتھیار اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔"

شاہنوازی نے کہا، "ہمارے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔"

'ایرانی سازشوں' کو ناکام بنانا

جیش العدل سُنی انتہاپسند تنظیم جنداللہ کی جانشین تنظیم ہے، جس نے حالیہ برسوں میں ایرانی فوج پر حملوں، خصوصاً سیستان-بلوچستان صوبہ میں، طغیانی برپا کیے رکھی ہے۔

اکتوبر 2018 میں، صوبہ سیستان-بلوچستان، ایران کے دارالحکومت، زاہدان کے جنوب مشرق میں 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں، لولاکدان کے قریب،جیش العدل نے 12 ایرانیوں، بشمول سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کے کم از کم دو خفیہ افسروں، کے اغواء کی ذمہ داری قبول کی تھی.

پاکستانی فوج نے نومبر 2018 میں 12 میں سے پانچ کو بازیاب کروا لیا تھا، مگر باقی ماندہ سات کا کیا بنا اس کی کبھی کوئی خبر نہیں ملی.

جیش العدل نے فروری 2019 میں ایک بس میں خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جو سیستان-بلوچستان میں آئی آر جی سی کے دستوں کو لے جا رہی تھی جس میں ایلیٹ ایرانی سیکیورٹی فورس کے 27 ارکان مارے گئے تھے۔

اس وقت آئی آر جی سی کے کمانڈر انچیف، میجر جنرل محمد علی جعفری، نے پاکستان کی فوج اور انٹر سروسز انٹیلی جنس پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا.

سیستان-بلوچستان، جہاں بڑی تعداد میں، سُنی اکثریتی نسلی بلوچ برادری، رہتی ہے اور ایران-پاکستان سرحد کے آر پار پھیلی ہوئی ہے، ایک طویل عرصے سے حساس علاقہ رہا ہے۔

جب پوچھا گیا آیا کہ عسکریت پسند گروہ کو ہمسایہ ممالک کی معاونت حاصل ہے، تو شاہنوازی نے کسی بھی بیرونی پشت پناہی کی سختی سے تردید کی۔

انہوں نے کہا، "ہم ایرانی دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔۔۔ ایرانی حکومت نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بے بنیاد دعوے کیے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم کبھی بھی امتِ مسلمہ کو ایرانی جارحیت کا شکار نہیں بننے دیں گے۔"

شاہنوازی کے مطابق، جبکہ آئی آر جی سی کی فورسز پر حملوں سے تہران اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ بڑھ گیا تھا، ایرانی حکومت اب اپنا لہجہ نرم کر رہی ہے مگر صرف پاکستان میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے۔

عسکریت پسند رہنماء کا کہنا تھا، "ایرانی حکومت ۔۔۔ اپنے مخالفین کے خلاف ۔۔۔ پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے؛ لہٰذا، اپنے سابقہ پاکستان مخالف بیانیئے کے باوجود، اب تہران دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ پاکستان کے ساتھ بہتر روابط کا متلاشی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم شیعہ فرقے کے خلاف نہیں ہیں؛ ہم جابر کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، اور ہم ایران میں مظلوم سُنیوں کو انصاف دلانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "ہمیں معلوم ہے کہ ایرانی عسکریت پسند تنظیمیں پاکستان میں سُنی علماء کو شہید کرتی رہی ہیں۔ ان قتلوں کا مقصد صرف فرقہ واریت پھیلانا اور ایرانی تزویراتی مفادات کے فائدے کے لیے بے یقینی کی فضاء پیدا کرنا ہے۔

شاہنوازی نے کہا، "ایرانی حکومت نے ہمیں مسلح جدوجہد کرنے پر مجبور کیا ہے۔"

علاقائی سلامتی کے لیے ایک خطرہ

شاہنوازی نے کہا حتیٰ کہ کچھ سُنی علماء بھی پاکستان میں ایرانی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں، اور ان علماء کو مالی معاونت مل رہی ہے۔

"کوئٹہ میں ایرانی قونصل خانہ علماء کو اپنے وظیفہ خوار بنانے میں بڑا متحرک ہے اور امن اور مذہبی ہم آہنگی کے لبادے میں انہیں استعمال کرتا ہے، اور مبینہ طور پر انہیں نئے کام سونپنے کے لیے قونصل جنرل کے دفتر میں اکثر طلب کیا جاتا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "ایران خطے کی مجموعی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن رہا ہے، اور ایرانی عوام کو خاص طور پر تہران کے انتہاپسندانہ نظریات اور پالیسیوں پر تشویش ہے، کیونکہ ان پالیسیوں سے براہِ راست ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایرانی حکومت کا دعویٰ کہ ہمیں پاکستان سے معاونت مل رہی ہے اور یہ کہ ہمارے جنگجو وہاں روپوش ہیں، بے بنیاد ہے۔ ہم نے کبھی بھی ملک سے باہر سے کارروائیاں نہیں کیں، اور ہمارے جنگجو صرف ایرانی سرزمین پر حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔"

جیش العدل کا منشور بیان کرتے ہوئے، شاہنوازی نے کہا، "ہماری تنظیم کا واحد مقصد ایران میں ایک وفاقی سیاسی نظام قائم کرنا اور بلوچ عوام اور ملک میں دیگر دینی اقلیتوں کے حقوق کو پورا کرنا ہے۔"

انہوں نے زور دیا کہ جیش العدل کے القاعدہ یا "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) جیسی تنظیموں کے ساتھ کوئی روابط نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہماری تنظیم پر لگائے جانے والے الزامات کا مقصد ہمارے تشخص اور عوامی رائے کو مجروح کرنا ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "ہماری مسلح جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ایران میں بلوچ اور سُنی عوام کے ساتھ امتیاز کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ایران کا انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان میں دہشتگردی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کلبھوشن سے ایرانی پاسپورٹ پکڑا گیا تھا وہ چاہبہار سے پاکستان آتا تھا۔

جواب

یہ ممکن ہے، لیکن ایران پر اس قدر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کا حال بھی عراق جیسا ہی ہو گا۔

جواب