چارلس ڈی گال کیریئر اسٹرائیک گروپ (سی ایس جی) کی بحر ہند میں تعیناتی، فرانس کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ وابستگی اور ہند- بحرالکاہل میں جہاز رانی کی آزادی کا تازہ ترین مظاہرہ ہے۔
یو ایس این آئی نیوز نے خبر دی ہے کہ بحر ہند میں مشن انتارس کے حصے کے طور پر تعینات شدہ، فرانسیسی سی ایس جی میں کیریئر چارلس ڈی گال، تباہ کن فوربن اور پروونس اور دوبارہ بھرنے والا جہاز، مارنے شامل ہیں۔
ہند- بحرالکاہل کے علاقے کی طرف جانے سے پہلے، سی ایس جی نے مہم کے ایک حصے کے طور پر بحیرہ روم اور بحیرہ عرب میں مہمات سر انجام دینے میں دو ماہ گزارے، جس میں فرانس اور اتحادی شراکت داروں کے 3,000 سروس ممبران شامل تھے۔
ان مہمات میں آپریشن انہیرنٹ ریزالو، جو کہ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کو شکست دینے کے لیے بین الاقوامی اتحادی مشن ہے، کے حصہ کے طور پر جنگ کی نقالی بھی شامل تھی۔
نیوی ریکیگنیشن کے مطابق، چارلس ڈی گال، جسے 2001 میں سند یاب کیا گیا تھا، فرانسیسی بحریہ کا پرچم بردار اور 10 واں فرانسیسی طیارہ بردار بحری جہاز ہے۔
یہ جوہری توانائی سے چلنے والا پہلا فرانسیسی سطحی جہاز ہے، اور امریکی بحریہ سے باہر، مکمل ہونے والا واحد جوہری طاقت والا جہاز ہے۔
ویب سائٹ نے بتایا کہ "جہاز میں ڈسالٹ رافیل ایم اور ای- 2 سی ہاوکی طیارے، اے ایس 365 ایف ڈوفن پیڈرو، ای سی 725 کیراکل اور اے ایس 532 کوگر ہیلی کاپٹر موجود ہیں جن کا مقصد جنگی تلاش اور بچاؤ ہے اور ساتھ ہی جدید الیکٹرانکس اور ایسٹر میزائل بھی موجود ہیں"۔
کیریئر ایئر گروپ 15 رافیل ایم طیاروں کے تین اسکواڈرن اور تین ای- 2 سی ہاوکی طیاروں کا ایک سکواڈرن چلاتا ہے۔
رافیل ایک جڑواں جیٹ لڑاکا طیارہ ہے جو طیارہ بردار بحری جہازوں اور ساحلی اڈوں سے یکساں طور پر کام کر سکتا ہے۔
اس کے تیارکنندہ، ڈسالٹ ایوی ایشن کے مطابق، اسے انواع و اقسام کی جنگی مہمات کے لیے بنایا گیا ہے، جس میں فضائی برتری، دشمن کے علاقے کے اندر دور تک جا کر کیے جانے والے حملے، جاسوسی اور جہاز مخالف کارروائیاں شامل ہیں اور اس نے ثابت کیا ہے کہ یہ تعاون کرنے والے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جنگ کرنے اور حقیقی وقت میں بات چیت کرنے کے قابل ہے۔
چارلس ڈی گال سی ایس جی نے 17 جنوری کو تین رافیل جنگجو طیاروں کو تقریباً 4,000 کلومیٹر (2,159 سمندری میل) دور سنگاپور میں پایا لیبر ایئر بیس پر بھیجا۔
فرانس کی ایئربس ملٹی رول ٹینکر ٹرانسپورٹ (ایم آر ٹی ٹی) رافیلز کے ہمراہ ان کی مدد کے لیے موجود تھی جو کہ فرانسیسی فضائیہ کے ساتھ رستابن مشترکہ پاور پروجیکشن مشق کا ایک حصہ ہے۔
ایوی ایشن ویکلی نے سنگاپور جانے والی پرواز کو رافیل کا اب تک کا سب سے طویل فورس منصوبہ قرار دیا ہے۔
ہند- بحرالکاہل موجودگی
فرانس واحد یورپی ملک ہے جس کی بحر ہند میں مستقل فوجی موجودگی ہے۔
ڈپلومیٹ نے گزشتہ جون میں خبر دی تھی کہ "بحرالکاہل اور بحر ہند میں فرانسیسی علاقوں میں رہنے والے 1.65 ملین فرانسیسی شہریوں اور 9 ملین مربع کلومیٹر کے ای ای زیڈ [خصوصی اقتصادی زون] کے ساتھ، ہند- بحرالکاہل نہ صرف سٹریٹجک دلچسپی کا خطہ ہے بلکہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں فرانسیسی خودمختاری براہ راست خطرے کا شکار ہے"۔
اس نے مزید کہا کہ "اس سے زیادہ کیا ہو گا، ان علاقوں کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے: دیگر کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور انتہائی موسمی واقعات میں اضافہ (ٹائفون، سمندر کی سطح میں اضافہ، وغیرہ)، غیر قانونی ماہی گیری، منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی شامل ہیں"۔
تقریباً 7,000 فوجی اہلکار، 20 جہازوں اور 40 ہوائی جہازوں کے ساتھ، مستقل طور پر خطے میں مقیم ہیں، جو پانچ کمانڈ سینٹرز کے ارد گرد منظم ہیں۔
فرانسیسی مسلح افواج کی وزارت نے فروری 2022 میں ہند-بحرالکاہل میں اپنی حکمت عملی کی تازہ ترین اپ ڈیٹ میں، خطے میں اپنی شراکت داری کو نمایاں کیا ہے۔
اس میں کئی اہم شعبوں میں ہندوستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں دفاع، سول نیوکلیئر پاور، خلاء اور سیکورٹی بشمول انسداد دہشت گردی اور سائبر سیکورٹی، شامل ہیں۔
اس اپ ڈیٹ میں ہند-بحرالکاہل خطے میں فرانس-جاپان تعاون کی کوششوں کو بھی ایک کلیدی ہدف کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے باوجود، فرانس ہند- بحرالکاہل میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
فرانس کی مسلح افواج کے وزیر سیبسٹین لیکورنو نے سنگاپور میں ہونے والے، 2020 کے شنگری لا ڈائیلاگ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ "اگرچہ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یوکرین کا بحران ہمیں نا خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دے گا اور فرانس کو خطے کے لیے کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے گا لیکن ایسا نہیں ہو گا۔"
چین کے بارے میں تشویش
مسلسل جاری فوجی مشقیں، جزوی طور پر چین پر بڑھتے ہوئے خدشات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
چین تقریباً تمام جنوبی بحیرہ چین پر دعویٰ کرتا ہے، جس کے ذریعے سالانہ کھربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام اس کے مقابلے میں دعوے دار ہیں۔
بیجنگ، فوجی اور تجارتی سہولیات کے نیٹ ورک کے ذریعے، مینلینڈ چین (اصل سرزمین چین) کو قرن افریقا سے جوڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی مہم کو بھی آگے بڑھا رہا ہے۔
اس کی "موتیوں کی لڑی" نامی حکمتِ عملی کے ایک حصے کے طور پر، چین کی سمندری لائنیں مالدیپ سے بنگلہ دیش، سری لنکا، پاکستان ، ایران اور صومالیہ تک کئی بڑی بندرگاہوں سے گزرتی ہیں۔
بیجنگ کی عالمی انفراسٹرکچر ڈرائیو، جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) یا ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) کہا جاتا ہے، ان اہم بندرگاہوں سے اندرون ملک تک جاتی ہے اور جہاں سے وہ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے دیگر حصوں تک پہنچتی ہے۔
تاہم، ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ چین کے بظاہر تجارتی منصوبے دوہرے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوج کو اپنی رسائی کو وسیع کرنے کا موقع ملتا ہے۔
موتیوں کی لڑی، نامی حکمتِ عملی بیجنگ کو فائدہ بھی دیتی ہے اور وسیع پیمانے پر تصادم شروع ہونے کی صورت میں اسے تائیوان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دراصل چین کی توسیع پسندی مغربی توسیع پرستی کے آگے کچھ بھی نہیں۔وہ لوگ سینکڑوں برس سے ان سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ چین نے توسیع ابھی شروع کی ہے جوکہ مغرب کا شکار علاقوں سے دور تھی جہاں انکی نظرپڑتے ہی کودپڑے ہیں اور جنوب ایشیا مشرقی ایشیا وغیرہ کو میدان جنگ بنانا چاھتے ہیں
جوابتبصرے 1