سلامتی

چین کی بنیادی ڈھانچے کی عالمی مہم خفیہ عسکری توسیع کے لیے ایک آڑ

از پاکستان فارورڈ

چینی فوجی دستے چوکس کھڑے ہیں جبکہ جنگی جہاز بندرگاہ سے رخصت ہو رہا ہے۔ [چینی وزارت دفاع]

چینی فوجی دستے چوکس کھڑے ہیں جبکہ جنگی جہاز بندرگاہ سے رخصت ہو رہا ہے۔ [چینی وزارت دفاع]

جب پچھلے سال کے آخر میں یہ خبر پھیلی کہ چین متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں خفیہ طور پر ایک فوجی اڈہ تعمیر کر رہا ہے، تو پورے خطے اور اس سے آگے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں کیونکہ چینی بنیادی ڈھانچے کے دیگر میزبانوں نے بیجنگ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو بغور دیکھنا شروع کر دیا۔

وال سٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) نے نومبر میں خبر دی کہ اماراتی حکومت کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ تجارتی جہازوں کے بھیس میں خلیفہ بندرگاہ میں داخل ہونے والے بحری جہاز درحقیقت وہ بحری جہاز تھے جنہیں چینی فوج سگنل انٹیلیجنس اکٹھی کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

بندرگاہ، جہاں چائنا اوشن شپنگ کمپنی لمیٹڈ (کوسکو) ایک تجارتی کنٹینر ٹرمینل چلاتی ہے، بجلی اور کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے والے پلانٹ تاویلہ سے تقریباً 5 کلومیٹر کے فاصلے پر، اور اماراتی دارالحکومت ابوظہبی سے تقریباً 50 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اس انکشاف، کہ چین خفیہ طور پر اماراتی بندرگاہ پر ایک فوجی تنصیب تعمیر کر رہا ہے، کے بعد تعمیر روک دی گئی تھی۔

4 جولائی 2018 کو لی گئی اس تصویر میں جبوتی میں کثیر المقاصد بندرگاہ ڈورالہ کے ساتھ واقع چینی فوجی اڈے کی عمارتیں دکھائی گئی ہیں۔ چین دنیا بھر میں بحری اڈے بنانے کے لیے بحری تجارت کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ [یاسویئوشی چیبا/اے ایف پی]

4 جولائی 2018 کو لی گئی اس تصویر میں جبوتی میں کثیر المقاصد بندرگاہ ڈورالہ کے ساتھ واقع چینی فوجی اڈے کی عمارتیں دکھائی گئی ہیں۔ چین دنیا بھر میں بحری اڈے بنانے کے لیے بحری تجارت کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ [یاسویئوشی چیبا/اے ایف پی]

15 فروری 2021 کو لی گئی اس تصویر میں، ایک چینی جنگی جہاز کراچی، پاکستان کے قریب بحیرۂ عرب میں ملٹی نیشنل بحری مشق امن-21 میں شریک ہے۔ حالیہ برسوں میں، چین نے پاکستان، ایران اور سری لنکا میں تجارتی بندرگاہیں تعمیر کی ہیں جنہیں اس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی بحریہ کی جانب سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

15 فروری 2021 کو لی گئی اس تصویر میں، ایک چینی جنگی جہاز کراچی، پاکستان کے قریب بحیرۂ عرب میں ملٹی نیشنل بحری مشق امن-21 میں شریک ہے۔ حالیہ برسوں میں، چین نے پاکستان، ایران اور سری لنکا میں تجارتی بندرگاہیں تعمیر کی ہیں جنہیں اس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی بحریہ کی جانب سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

لیکن خطے میں چینی موجودگی سے متعلق خدشات دور نہیں ہوئے۔

مذموم مقاصد

ابوظہبی پورٹس کمپنی نے دسمبر 2018 میں کوسکو کے ساتھ 35 سالہ رعایتی معاہدہ کیا، جس نے چینی کمپنی کو خلیفہ بندرگاہ پر کنٹینر ٹرمینل چلانے اور تیار کرنے کے قابل بنا دیا۔

یہ ٹرمینل بظاہر چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کی جانب پیدا ہونے والی تجارت میں معاونت کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، جو سنہ 2013 میں شروع ہونے والا پورے ایشیا ، افریقہ، یورپ اور اوشینیا کے 78 ممالک کو جوڑنے والا بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔

لیکن تزویراتی طور پر واقع اماراتی بندرگاہ میں چین کی قدم جمانے کی کوشش - جیسا کہ اس کی موجودگی تزویراتی طور پر واقع بندرگاہوں کے "ہار" میں ہے جو بحیرۂ جنوبی چین سے نہر سویز تک پھیلی ہوئی ہے - دوسرے مقاصد کو بھی پورا کرتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اپنے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ، خطے تک عسکری رسائی کو آسان بنانے کے لیے، چین بندرگاہوں کے سلسلے میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے آگے تک خدشات کی موجیں پھیل رہی ہیں۔

ایک بہترین مثال کے طور پر، متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ پر چینی سرگرمی ایک تجارتی کوشش کے طور پر شروع ہوئی۔ لیکن بیجنگ نے اپنی فوج کے لیے لنگر انداز ہونے کی جگہ قائم کرنے کے لیے ان تجارتی تعلقات کو تیزی سے استعمال کیا۔

اس طرزِ عمل کا پورا ایک نمونہ ہے۔

چین نے سنہ 2017 میں مبینہ طور پر بحرِ ہند اور مشرقی افریقہ کے گرد بحری کارروائیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے، جبوتی میں اپنا پہلا سمندر پار فوجی اڈہ کھولا۔ بیجنگ نے خلیجِ عدن میں بحری قذاقی کے خطرے اور بین الاقوامی سمندری راستوں کو محفوظ بنانے کی خواہش کو جواز کے طور پر استعمال کیا۔

سنہ 2016 میں جبوتی پر گفتگو کرتے ہوئے، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ چین "چینی مفادات کے ارتکاز کے ساتھ خطوں میں کچھ ضروری بنیادی ڈھانچے اور نقل و حمل کی صلاحیتیں تعمیر کرے گا"۔

بیجنگ حکام نے مغربی افریقہ میں بھی ایک فوجی اڈے کا جواز پیدا کرنے کے لیے یہی طرز استدلال استعمال کیا ہے۔

دنیا بھر میں قدم جمانا

استوائی گنی میں چین کے فوجی اڈے کے منصوبے کے بارے میں گزشتہ دسمبر میں ڈبلیو ایس جے کی ایک اور رپورٹ کے جواب میں، چینی ریاستی اخبار گلوبل ٹائمز نے پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی "کچھ دور دراز پانیوں میں قدم جمانے" کی بڑھتی ہوئی ضرورت کی تصدیق کی کیونکہ چین کے بیرونِ ملک مفادات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں، چین نے ایران اور سری لنکا سمیت دیگر اہم علاقوں اور پاکستان میں تجارتی بندرگاہیں تعمیر کی ہیں، جنہیں اس کی تیزی سے وسیع ہوتی ہوئی بحریہ کی جانب سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جنوری کے وسط میں، تہران نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ تزویراتی تعاون کے ایک 25 سالہ جامع معاہدے پر عمل درآمد شروع کر رہا ہے، جس پر گزشتہ سال دستخط ہوئے تھے۔

معاہدے کی شرائط کے تحت، 400 بلین ڈالر کے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے آغاز کے ذریعے ایران بی آر آئی میں شامل ہو گا

عراقی مرکز برائے تزویراتی مطالعات کے ڈائریکٹر غازی فیصل حسین نے المشارق کو بتایا کہ اس کے بدلے میں چین ایرانی تیل کو عالمی منڈی کی قیمت سے 30 فیصد رعایت پر خریدے گا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، "چین خطے کے بے پناہ معدنی وسائل پر ہاتھ ڈال کر کشش ثقل کا عالمی اقتصادی مرکز بننے کا خواہش مند ہے۔"

ایرانی بحریہ کے ایک سابق تجزیہ کار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر المشارق کو بتایا کہ بیجنگ کے نقطۂ نظر سے، "معاہدے کا مقصد چین کے لیے ایران میں قدم جمانا ہے، خصوصاً خلیج فارس میں جاسک اور کیش کے جزائر پر"۔

تجزیہ کار نے کہا کہ اگرچہ یہ معاہدہ ظاہری طور پر تجارتی نوعیت کا ہے، لیکن جاسک اور چاہ بہار کی ایرانی بندرگاہوں میں چینی سرمایہ کاری اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی بحریہ کو اپنی رسائی میں اضافہ کرنے کے قابل بنائے گی۔

ڈبلیو ایس جے نے سنہ 2019 میں امریکی اور اتحادی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ایک اور مثال میں، چین نے اپنی بحریہ کو کمبوڈیا میں ایک اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دلوانے کے لیے اس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا۔

چینی اور کمبوڈین دونوں حکام نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں "جعلی خبریں" اور "افواہیں" قرار دیا۔

واشنگٹن پوسٹ نے 6 جون کو مغربی حکام کے حوالے سے خبر دی کہ اب چین خفیہ طور پر کمبوڈیا میں اپنی فوج کے خصوصی استعمال کے لیے ایک بحری تنصیب تعمیر رہا ہے۔

حکام نے کا کہنا تھا کہ کمبوڈیا میں چینی بحری اڈے کا قیام بیجنگ کی ایک حقیقی عالمی طاقت بننے کی خواہشات کی حمایت میں دنیا بھر میں فوجی تنصیبات کا نیٹ ورک بنانے کی حکمت عملی کا ایک جزو ہے۔

لیکن خطے میں بڑھتے ہوئے چین مخالف جذبات پر، کمبوڈیا کے وزیر دفاع ٹی بان نے ان اطلاعات کو مسترد کرنے کی زحمت کی۔

فنانشل ٹائمز نے اس کے فوراً بعد خبر دی کہ 10 تا 12 جون کو سنگاپور میں منعقد ہونے والے شنگریلا ڈائیلاگ سیکیورٹی فورم میں اپنے بیان میں، انہوں نے بیجنگ کے ان دعوؤں کی بازگشت کی کہ پی ایل اے عالمی اڈوں کا نیٹ ورک بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

بلند اہداف

چین نے سنہ 2019 کے دفاعی وائٹ پیپر میں اعتراف کیا تھا کہ فوج کے کاموں میں کارگو جہازوں کی حفاظت شامل ہے اور یہ کہ "پی ایل اے بیرون ملک انتظامی عمارات" تیار کرے گی۔

فی الحال، پی ایل اے زیادہ تر بیرون ملک بندرگاہوں پر ان عمارات پر انحصار کرتی ہے جو چینی ریاستی اداروں کی ملکیت ہیں یا ان کی طرف سے چلائی جاتی ہیں۔

یو ایس نیول وار کالج کے چائنا میری ٹائم سٹڈیز انسٹیٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور اپریل میں شائع ہونے والی کی ایک رپورٹ کے شریک مصنف، آئزک کارڈن کے مطابق، چینی کمپنیاں 53 ممالک میں 96 بندرگاہوں پر کم از کم ایک ٹرمینل کی مالک ہیں یا اسے چلاتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کا نیٹ ورک تیزی کے ساتھ پی ایل اے کی دور افتادہ سمندری کارروائیوں میں ریڑھ کی ہڈی بن رہا ہے۔

کارڈن نے کہا، البتہ، چین کا عالمی فوجی تسلط کا ہدف ابھی بہت دور ہے۔

کارڈن نے فنانشل ٹائمز کو بتایا، "حتیٰ کہ اگر کمبوڈیا اور متحدہ عرب امارات اور استوائی گنی اگلے چند سالوں میں آن لائن ہونے والے بھی تھے، پی ایل اے امریکہ جیسے عالمی اڈوں کے نیٹ ورک کی طرف نہیں جا رہا۔"

کارڈن نے کہا، "امریکہ، ایک ایسا ملک جس نے عالمی جنگ لڑی اور پھر سرد جنگ میں اس حالت کو برقرار رکھا، [کے برعکس] چین نے صرف بیرونِ ملک فوجی موجودگی کی شروعات کی ہے اور وہ اس کے لیے اپنے عالمی اقتصادی اقدامات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ "سول ملٹری فیوژن" پالیسی، جو پی ایل اے کو سویلین کمپنیوں کے اثاثوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل بناتی ہے، اس نے چینی سرمایہ کاری اور تجارت کے تحفظ میں پی ایل اے کی مدد کی ہے۔

ایک چینی عسکری محقق، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کو کہا کیونکہ وہ اس موضوع پر بات کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے، نے دعویٰ کیا کہ چین اصولی طور پر بیرونِ ملک فوجی اڈے بنانے کے خلاف ہے۔

البتہ، محقق نے بیجنگ کے بنیادی ڈھانچے کی مہم کے دوہرے مقصد کی طرف اشارہ کیا۔

اس شخص نے فنانشل ٹائمز کو بتایا، "ہمارا ماڈل ترقی پر مرکوز ہے۔ اب یہ ہماری فوج کے مشن کا حصہ بن گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک اس ترقی کی حفاظت کرے، لیکن ہم اس ترقی کے ثمرات کو اس مشن کی تکمیل کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500