سلامتی

امریکہ اور پاکستان کے قریبی تعلقات کے تناظر میں کثیر قومی امن بحری مشقوں کا آغاز

از زرک خان

امریکی گشتی جہاز یو ایس ایس سکوال اور یو ایس ایس ورل ونڈ جنوری 2021 میں کراچی کے دورے پر۔ [اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ]

امریکی گشتی جہاز یو ایس ایس سکوال اور یو ایس ایس ورل ونڈ جنوری 2021 میں کراچی کے دورے پر۔ [اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ]

پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کے مہینوں کے دوران پاکستان کی امن نامی کثیر قومی بحری مشقیں اس ماہ شروع ہو رہی ہیں۔

پاک بحریہ سنہ 2007 سے امن کے نام سے دو سالہ مشق کا انعقاد کر رہی ہے۔

اس سال امن-23 مشق 10 سے 14 فروری تک کراچی کے ساحل پر بحیرۂ عرب میں ہو گی، جس کا مقصد دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور سمندری دہشت گردی اور بحری قزاقی کا مقابلہ کرنا ہے۔

پاکستان کے چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی نے 9 جنوری کو چین کے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ مشق "علاقائی اور ماورائے-علاقائی بحری افواج کے درمیان تکنیکی صلاحیتوں کی مختلف سطحات پر باہمی تعاون کو بڑھا کر سمندری سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے شریک بحری یونٹوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے گی"۔

امریکی اور پاکستانی بحریہ کے اہلکار 9 اکتوبر 2022 کو امریکی کوسٹ گارڈ کے جہازوں چارلس مولتھروپ اور ایملن ٹنل کی کراچی آمد کے بعد تصویر بنواتے ہوئے۔ [اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ]

امریکی اور پاکستانی بحریہ کے اہلکار 9 اکتوبر 2022 کو امریکی کوسٹ گارڈ کے جہازوں چارلس مولتھروپ اور ایملن ٹنل کی کراچی آمد کے بعد تصویر بنواتے ہوئے۔ [اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ]

نیازی نے کہا، "بہت سے غیر روایتی خطرات ہیں جو بحرِ ہند کے وسیع علاقے میں موجود ہیں جیسے کہ دہشت گردی، بحری قزاقی، منشیات کی سمگلنگ اور اسلحے کی سمگلنگ"۔

انہوں نے کہا، "سمندروں کی وسعت سمندری میدان کو غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے ایک پُرکشش راستہ بناتی ہے، اور کوئی بھی ملک ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا"۔

انہوں کا کہنا تھا کہ اس طرح تعاون پر مبنی سمندری سلامتی ایک مسلمہ اصول کے طور پر تیار ہوئی ہے اور پاکستانی بحریہ بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں میں فعال طریقے سے شامل ہے۔

امن-23 مشق کو دو الگ الگ مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے – بندرگاہ پر اور سمندر میں۔

بندرگاہ کا مرحلہ 10-12 فروری کو منعقد ہو گا اور اس میں مشق کے آغاز کے موقع پر تمام شریک ممالک کے جھنڈے لہرائے جائیں گے۔

تقریب کے منتظم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "بندرگاہ کے مرحلے کے دوران، تمام ممالک کے شرکاء ایک دوسرے کے بحری جہازوں کا دورہ کرتے ہیں اور پاکستانی حکام غیر ملکی بحریہ کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتیں کرتے ہیں تاکہ سمندری سلامتی کے عصری چیلنجز کے بارے میں تجربات کا تبادلہ کیا جا سکے اور سمندری مشقوں کے طریقۂ کار کو ہم آہنگ کیا جا سکے"۔

اہلکار نے بتایا کہ سمندری مرحلہ، جو 13 سے 14 فروری تک منعقد ہو گا، "جنگی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور دیگر طیاروں کی مشقوں" کے ساتھ ساتھ خصوصی کارروائی کی مشقیں، بندوقوں سے فائرنگ، بحری قذاقی کی روک تھام کے مظاہرے، سمندر میں دوبارہ بھرتی اور فلائی پاسٹس پر مشتمل ہے۔

'مضبوط اور پائیدار' تعلقات

اس سال امن-23 میں حصہ لینے کے لیے 110 ممالک کی بحریہ کو مدعو کیا گیا ہے۔

اہلکار نے کہا، "امن مشقوں کے شرکاء میں اضافہ بحرِ ہند کے علاقے میں سمندری سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کی جاری علاقائی اور بین الاقوامی پہل کاریوں کو سہارا دینے کے لیے علاقائی ممالک کی بیتابی اور جوش کا اظہار ہے"۔

سنہ 2007 میں اس مشق میں 28 ممالک نے حصہ لیا تھا۔

کووڈ-19 کی پابندیوں کے باوجود، یہ تعداد سنہ 2021 تک بڑھ کر 43 ممالک تک پہنچ گئی تھی۔

امریکی بحریہ خاص طور پر حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کو بڑھا رہی ہے۔

اکتوبر میں، امریکی کوسٹ گارڈ کے دو کٹروں – یو ایس سی جی سی چارلس مولتھروپ اور یو ایس سی جی سی ایملن ٹنل – نے امریکی 5ویں بحری بیڑے اور پاکستانی بحریہ کے درمیان جاری مشترکہ مشقوں اور تکنیکی تبادلوں کے سلسلے کے ایک جزو کے طور پر کراچی کا دورہ کیا۔

امریکی بحری افواج کی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے گزشتہ 9 اکتوبر کو ایک اعلامیئے میں کہا گیا کہ امریکی کوسٹ گارڈز کے بحری جہازوں کو امریکی 5ویں بحری بیڑے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں سمندری سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے آگے تعینات کیا گیا تھا۔

امریکی 5ویں بیڑے کے آپریشنز کا رقبہ تقریباً 2.5 ملین مربع میل (6.5 ملین مربع کلومیٹر) پانی پر محیط ہے اور اس میں خلیجِ عرب، خلیجِ عمان، بحیرۂ احمر اور بحرِ ہند کے کچھ حصے شامل ہیں۔ یہ وسعت 20 ممالک پر مشتمل ہے اور اس میں آبنائے ہرمز، نہر سویز اور یمن کے جنوبی سرے پر آبنائے باب المندب کے تین اہم چوک پوائنٹس شامل ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ کیپٹن ایرک ہیلگن، گشتی افواج ساؤتھ ویسٹ ایشیا کے کموڈور نے اُس وقت کہا کہ بندرگاہ کا دورہ "پاک بحریہ اور امریکی 5ویں بحری بیڑے کے درمیان مضبوط شراکت داری" کی عکاسی کرتا ہے۔

ہیلگن نے کہا، "ہمارے تعلقات مضبوط اور پائیدار ہیں، جو عملے کے تبادلے اور مشترکہ مشقوں پر قائم ہیں تاکہ ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھایا جا سکے"۔

دیگر بحری جہاز جنہوں نے گزشتہ سال کراچی کا دورہ کیا ان میں یو ایس ایس گرڈلی، ایک ارلی برک کلاس گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر، اور یو ایس ایس سکوال اور یو ایس ایس ورل ونڈ گشتی جہاز شامل تھے۔

واشنگٹن کے حالیہ اقدامات، جیسا کہ امریکی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر کا دورہ پاکستان اور پاکستان کو F-16 لڑاکا طیاروں کی ممکنہ فروخت کی منظوری، دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا ثبوت ہیں۔

بین الاقوامی پانیوں کی پولیسنگ

امن-23 مشقوں کی میزبانی کرنا پاکستان کے کئی سالوں سے جاری کام کو سمندروں میں بحری پولیس کی مدد کرتا ہے۔

پاک بحریہ نے اسی سال فروری میں خلیجِ عمان میں بین الاقوامی سمندری مشق (آئی ایم ایکس) 2022 میں حصہ لیا۔

پاک بحریہ کے کمانڈر نے کہا، "IMX/CE 2022 نے دنیا بھر کی بحری افواج، سمندری تنظیموں اور علاقوں کو قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی عزم کا مظاہرہ کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کیا۔" اس مشق کے ڈپٹی کمانڈر وقار محمد نے امریکی سینٹرل کمانڈ کے ایک بیان میں کہا۔

سی ایم ایف کی ویب سائٹ سنہ 2004 میں، پاکستان نے امریکہ کی زیرِ قیادت مشترکہ سمندری افواج(سی ایم ایف) میں شمولیت اختیار کی، ایک 34 ملکی اتحاد جو "بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے موجود ہے ... بحیرہ سمندر پر غیر قانونی غیر ریاستی عناصر کا مقابلہ کرتے ہوئے"۔

سی ایم ایف "تقریباً 3.2 ملین مربع میل [8.3 ملین مربع کلومیٹر] بین الاقوامی پانیوں کی حفاظت کرتی ہے" اور اس کا صدر دفتر بحرین میں امریکی بحریہ کے اڈے پر ہے۔

پاکستان سی ایم ایف کی چار ٹاسک فورسز میں سے دو میں حصہ لیتا ہے: سی ٹی ایف 150، جو خلیج سے باہر سمندری سلامتی کی حفاظت کرتا ہے، اورسی ٹی ایف-151، جو بحری قزاقی سے لڑتا ہے۔

ٹاسک فورسز کی کمان ہر چار سے چھ ماہ بعد گھومتی ہے۔ پاک بحریہ نے کئی بار ہر ٹاسک فورس کی کمان کی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Nhay psand

جواب

عمدہ

جواب