دہشتگردی

بلوچ عسکریت پسند کی گرفتاری سے ایران میں خفیہ تربیتی مرکز کا پردہ فاش

از زرک خان

فروری میں گاڑیاں تفتان، بلوچستان کے راستے پاکستان سے ایران میں داخل ہو رہی ہیں۔ [زرک خان]

فروری میں گاڑیاں تفتان، بلوچستان کے راستے پاکستان سے ایران میں داخل ہو رہی ہیں۔ [زرک خان]

ایک ریٹائرڈ جج کے قتل میں ایک مشتبہ شخص کی گرفتاری کے بعد، پاکستانی حکام کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ عسکریت پسند پاکستان میں حملوں کے لیے ایران میں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کر رہے ہیں

بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کو 14 اکتوبر کو صوبہ بلوچستان کے شہر خاران میں ایک مسجد میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

ایک کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

کوئٹہ میں، سی ٹی ڈی کے ایک سینیئر اہلکار، اعتزاز گورایہ نے بتایا کہ بلوچستان کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے جمعہ (28 اکتوبر) کے روز ضلع خاران میں ایک مشترکہ چھاپہ مار کارروائی میں بی ایل اے کے رکن اور مسکانزئی کے قتل کے مرکزی ملزم، شفقت اللہ جھالانزئی کو گرفتار کر لیا۔

بلوچستان سی ٹی ڈی کی جانب سے 29 اکتوبر کو جاری کی گئی ویڈیو سے لیے گئے سکرین کے ٹکڑے میں بی ایل اے کے رکن شفقت اللہ جھالانزئی کو یہ اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اس نے ایران کے شہر سروان میں تربیت حاصل کی تھی۔ [فائل]

بلوچستان سی ٹی ڈی کی جانب سے 29 اکتوبر کو جاری کی گئی ویڈیو سے لیے گئے سکرین کے ٹکڑے میں بی ایل اے کے رکن شفقت اللہ جھالانزئی کو یہ اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اس نے ایران کے شہر سروان میں تربیت حاصل کی تھی۔ [فائل]

ہفتے کے روز گورایا نے بتایا کہ جھالانزئی نے مسکانزئی کو قتل کرنے اور صوبے میں سیکیورٹی فورسز پر دیگر حملوں کا اعتراف کیا۔

سی ٹی ڈی کی طرف سے جاری کردہ اور پاکستان فارورڈ کی طرف سے دیکھے گئے ایک ویڈیو بیان میں، جھالانزئی نے اعتراف کیا کہ اس نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر سروان میں عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کی تربیت حاصل کی تھی۔

فروری میں ہونے والے حملوں کے بعد، پاکستانی حکام نے تہران پر عسکریت پسند گروہوں کو اپنی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہوں سے کام کرنے کی اجازت دینے کا الزام لگایا تھا۔

بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے 2 فروری کو بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں فوجی چوکیوں پر جڑواں حملے کیے تھے۔

ایک اور کالعدم عسکریت پسند گروہ، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)نے 25 جنوری کو ضلع کیچ میں 10 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اُس وقت کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے مارچ میں قومی اسمبلی کے سوالات کے جواب میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ کالعدم عسکریت پسند گروہ سیستان و بلوچستان کے راستے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کے مطابق، بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کی منصوبہ بندی ایران سے کی تھی۔

25 مارچ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈاکٹر اللہ نذر، بی ایل ایف کے ایک عسکریت پسند رہنماء پر بھی ایران سے پاکستان کے خلاف آپریشن کرنے کا شبہ ہے۔

اس میں کہا گیا، "بی ایل اے اور بی ایل ایف اپنے ساتھ ایران کے نرم رویئے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے انہیں اور دیگر بلوچ باغی گروہوں کو تحفظ اور پناہ دی ہے"۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی گروہوں نے اس تحفظ کو جیش العدل پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جو کہ ایک ایرانی عسکریت پسند گروپ ہے جو سیستان و بلوچستان میں بلوچ نسلی برادری پر مبینہ ظلم و جبر کرنے پر تہران کا مخالف ہے۔

پاکستان نے بارہا ایران کے ساتھ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مسئلہ اٹھایا ہے۔

ایرانی مداخلت

حالیہ برسوں میں سرحد پار سے عسکریت پسندی اور اپنے معاملات میں ایرانی مداخلت کی وجہ سے اسلام آباد کا تہران کے ساتھ صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔

فروری میں ایک سیکیورٹی کریک ڈاؤن میں، پاکستانی حکام نے پاکستانی منی لانڈرنگ کرنے والوں اور ایرانی خفیہ اداروں کے درمیان روابط کا پتہ لگایا تھا.

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 9 فروری کو کراچی میں قائم ہاؤسنگ فنانس کارپوریشن کے ایک سینئر اہلکار کو گرفتار کیا تھا، جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے۔

ڈان کی خبر کے مطابق، اہلکار کو "ایرانی خفیہ اداروں کے لیے ہنڈی اور حوالہ کا کاروبار کرنے" میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

کراچی میں ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق، یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب حکام نے کراچی میں حوالات اور ہنڈی کے کاروبار کے ایک گروہ کا پردہ فاش کیا، 13 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا اور کروڑوں روپے کے برابر غیر ملکی اور مقامی کرنسیاں ضبط کیں۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "پاکستان کے متعدد خفیہ ادارے پاکستان کی داخلی سلامتی کے معاملات میں تہران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں"۔

اہلکار نے کہا کہ ابتدائی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی خفیہ ادارے تہران سے منسلک عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ زینبیون بریگیڈ اور سپاہ محمد پاکستان (ایس ایم پی) کو فنڈ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایران کی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) نے زینبیون بریگیڈ تشکیل دی، جو پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملیشیا ہے جسے بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑنے کے لیے شام بھیجا گیا تھی۔

اگرچہ زینبیون بریگیڈ پر ابھی تک پاکستان میں پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، حکومت نے سنہ 2016 اور 2020 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دو غیر معروف شیعہ تنظیموں، انصار الحسین اور اس کی شاخ، خاتم الانبیاء کو شامی جنگ میں بھرتی کے ساتھ ان کے روابط کے لیے، کالعدم قرار دے دیا ہے۔

ایرانی حکومت نے مبینہ طور پر شیعہ دہشت گرد تنظیم، کالعدم ایس ایم پی کو مبینہ طور پر معاونت اور فنڈز بھی فراہم کیے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500