9 فروری کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کراچی میں واقع ایک پاکستانی ہاؤسنگ فنانس کمپنی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذیلی ادارے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے ایک سینیئر اہلکار کو گرفتار کر لیا۔
ڈان کی خبر کے مطابق، اہلکار کو "ایرانی انٹیلیجنس کے لیے ہنڈی اور حوالے کا کاروبار کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔"
ایف آئی اے نے اسی تفتیش میں بلوچستان حکومت کے ایک ملازم کو منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں کوئٹہ سے گرفتار بھی کیا تھا۔
کراچی میں ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق، یہ گرفتاریاں اس وقت ہوئیں جب حکام نے کراچی میں حوالے اور ہنڈی کے کاروبار کے ایک ریکٹ کا پردہ فاش کیا، 13 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور کروڑوں روپے کے مساوی غیر ملکی اور مقامی کرنسیوں کو ضبط کیا۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اہلکار نے بتایا، "گرفتار کردہ افراد ایک ایرانی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے اور وہ ایک کرنسی ایکسچینج فرم کے ذریعے پاکستان اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والے اپنے حلقوں کو پیسہ اور ترسیلاتِ زر بھیجنے میں ملوث تھے۔"
اہلکار نے کہا، "کئی پاکستانی حساس ادارے پاکستان کی داخلی سلامتی کے معاملات میں تہران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ گرفتار کردہ افراد سے تفتیش جاری ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایرانی خفیہ ایجنسی تہران سے منسلک عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ زینبیون بریگیڈ اور سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی) کو سرمایہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی تھی.
ایران کی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب نے زینبیون بریگیڈ تشکیل دی تھی، پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملیشیا جو شام میں بشار الاسد کی حکومت اور دیگر جگہوں پر لڑنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
ایرانی حکومت نے مبینہ طور پر شیعہ دہشت گرد تنظیم، کالعدم ایس ایم پی کو معاونت اور سرمایہ بھی فراہم کیے ہیں۔
ایرانی مداخلت
حالیہ گرفتاریاں پاکستان کی داخلی سلامتی میں تہران کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی تازہ ترین علامت ہیں۔
فروری کے اوائل میں بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں کے حملوں کے بعد، پاکستانی حکام نے تہران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے عسکریت پسند گروہوں کو ایران میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
صوبائی وزیرِ داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے اُس وقت کہا تھا کہ جن عسکریت پسندوں نے پنجگور اور نوشکی میں حملوں میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا ہو سکتا ہے انہوں نے ایرانی سر زمین استعمال کی ہو اور ایران سے سفر کر کے آئے ہوں۔
بلوچستان کے انسدادِ دہشت گردی حکام نے گزشتہ 24 ستمبر کو بلوچستان کے ضلع تربت میں مخبری کی بنیاد پر کارروائی کے دوران ایران سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد سیل کے تین مبینہ ارکان کی گرفتاری کا بھی اعلان کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مداخلت پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہے۔
ایک دفاعی تجزیہ کار اور بلوچستان حکومت کے سابق مشیر جان اچکزئی نے کہا، "ایران نے پاکستان، خصوصاً بلوچستان میں، اپنے سیاسی، اقتصادی اور پراکسی ذرائع کے ذریعے اپنی نرم طاقت کی حکمتِ عملی کو وسعت دی ہے۔"
7 فروری کو انہوں نے گلوبل ویلیج سپیس میگزین میں لکھا، "تہران نے کثیر سطحات پر اپنا [اثر و رسوخ] استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ... اور یہ اثر و رسوخ یقینی طور پر پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔"
بلوچ علیحدگی پسند گروہ، زینبیون بریگیڈ، فاطمیون ڈویژن -- افغانوں پر مشتمل ایک ملیشیا جو الاسد کی حمایت میں شام میں لڑنے کے لئے بھیجی گئی -- اور مرحوم ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی قائم کردہ دیگر ملیشیائیں حال ہی میں فعال ہوئی ہیں اور اچکزئی کے بقول، ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا قوی امکان ہے۔
آئی آر جی سی کی قدس فورس کا کمانڈر، سلیمانی عراق، شام، لبنان، یمن اور افغانستان سمیت پورے خطے میں متعدد توسیع پسند پراکسی جنگوں کا منصوبہ ساز تھا۔
وہ 3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ، اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے اور پاکستان بھر میں اس کے قونصل خانوں نے سلیمانی کی موت کی دوسری برسی کے موقع پر شہروں میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا اور سرمایہ فراہم کیا، جس پر پاکستانیوں کی جانب سے تنقید اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
پاکستان خود گزشتہ تین برس سے افغانستان کے خلاف اور گزشتہ پانچ برس سے پختونخوا کی عوام کو قتل کرنے کے لیے عسکریت پسندوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اگر دنیا دہشتگردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے پاکستان کی نام نہاد گندگی کو تاریخ کے اوراق میں پھینک دینا ہوگا اور اسے پختونستان، بلوچستان، سندھودیش اور پنجاب کی ریاستوں میں تقسیم کرنا ہوگا، یا پشتون علاقہٴ عملداری کو افغانستان میں شامل کرنا ہو گا۔ ایک بار پھر بلوچستان کی بھارت میں شمولیت سے بلوچستان اور سندھودیش خودمختار ریاستیں قرار دے دی جائیں گی۔
جواببھارتی ہندتوا دہشتگرد ریاست اپنی باضابطہ خارجہ پالیسی کے جزُ کے طور پر تمام ہمسایہ ممالک میں دہشتگردی میں معاونت کرنے کے لیئے معروف ہے۔ بھارت نے سری لنکا میں ایل ٹی ٹی ای دہشتگرد کی حمایت کی جس نے سری لنکا میں 25 برس تک خون آشام جنگ مسلط کیے رکھی۔ اب بھارت پاکستان میں دہشتگردی کی معاونت کر رہا ہے۔ دنیا کے لیئے امن کے حصول کا یہی ایک راستہ ہے کہ بھارت کو متعدد خودمختار ممالک میں تقسیم کر دیا جائے۔ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کو جلد ہی پاکستان اپنے ساتھ شامل کر لے گا، جبکہ جلد ہی خالصتان، دراوڑا ناڈو، ناگالینڈ، منی پور، آسام اور دیگر شمال مشرقی خطہ آزادی حاصل کر لے گا اور اروناچل پردیش اور لداخ پہلے ہی درحقیقت چین کے زیرِانتظام ہیں۔ لہٰذا دشتگرد سریندرا مودی کے نام سے معروف ہے۔
جوابتبصرے 2