سلامتی

ایرانی پشت پناہی کے حامل شعیہ عسکریت پسند گروہ مسلسل حکومتی جانچ میں

ضیاءالرّحمٰن

کراچی کے نفاذِ قانون کے اہلکار 5 دسمبر کو سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ متعدد کالعدم سنّی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ، کئی کالعدم شعیہ عسکریت پسند گروہ، بطورِ خاص سپاہِ محمّد پاکستان، پاکستانی حکام کی جانب سے مسلسل دباؤ کے تحت زوال پذیر ہو گئے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

کراچی کے نفاذِ قانون کے اہلکار 5 دسمبر کو سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ متعدد کالعدم سنّی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ، کئی کالعدم شعیہ عسکریت پسند گروہ، بطورِ خاص سپاہِ محمّد پاکستان، پاکستانی حکام کی جانب سے مسلسل دباؤ کے تحت زوال پذیر ہو گئے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

کراچی – دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کے کریک ڈاؤن نے نہ صرف سنّی عسکریت پسند گروہوں، بلکہ سپاہِ محمّد پاکستان (ایس ایم پی) جیسے شعیہ گروہوں کو بھی نرغے میں لیا ہے۔

شعیہ عسکریت پسند گروہوں پر پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد کو ہوا دینے اور بیرونِ ملک، مشرقِ وسطیٰ کے تنازع میں لڑائی کے لیے نوجوانوں کو بھیجنے کا الزام ہے۔

ایران کی جانب سے مالیات اور حمایت کے ساتھ، ایس ایم پی 1990 کی دہائی کے اوائل میں سامنے آیا، جب پاکستان میں فرقہ ورانہ تنازع اپنے عروج پر تھا۔ تب سے ایس ایم پی علمائے دین اور پیشہ وران پر فرقہ ورانہ حملوں میں ملوث رہا ہے۔

اگست 2001 میں، حکومت نے فرقہ ورانہ تشدد کو روکنے کی ایک کوشش میں ایک سنّی دہشتگرد گروہ، لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) کے ساتھ ایس ایم پی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اسی طریق پر جنوری 2002 میں ایک شعیہ سیاسی جماعت تحریکِ جعفریہ پاکستان کے ساتھ ایک سنّی سیاسی گروہ سپاہِ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) کو کالعدم قرار دیا گیا۔

سپاہِ محمّد پاکستان (ایس ایم پی) کے درجنوں عسکریت پسند سندھ پولیس کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی کی 2018 ریڈ بک میں شامل ہیں۔ اس میں مطلوب ترین عسکریت پسند ملزمان کے نام، تصاویر اور تفصیلات شامل ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

سپاہِ محمّد پاکستان (ایس ایم پی) کے درجنوں عسکریت پسند سندھ پولیس کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی کی 2018 ریڈ بک میں شامل ہیں۔ اس میں مطلوب ترین عسکریت پسند ملزمان کے نام، تصاویر اور تفصیلات شامل ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

ایک سینیئر انٹیلی جنس عہدیدار نے اپنی شناخت خفیہ رکھے جانے کی شرط پر کہا، "یہ گروہ [ایس ایم پی] مخالف فرقوں کے رہنماؤں بطورِ خاص ایس ایس پی، اور مخالف فرقوں کے علمائے دین اور پیشہ وران کوبدلے کے لیے قتلکرنے میں بڑے پیمانے پر ملوث تھا۔"

کراچی میں انسدادِ دہشتگردی آپریشنز میں شریک اس عہدیدار نے کہا، "لیکن اس وقت کی حکومت کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے یہ شعیہ گروہ دہائی کے وسط تک اپنی طاقت کھو چکا تھا۔ 2001 میں پابندی لگنے کے بعد ایس ایم پی مزید کمزور ہو گیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ بیشتر یس ایم پی ایران فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی، تاہم متعدد ارکان نے کراچی اور لاہور سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں2008-2009 میں ازسرِ نو گروہ بندی کر لی۔

انسدادِ فرقہ ورانہ تشدد

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر طالبان کے ایک حملے کے بعد حکومت کی جانب سے اپنائی گئی انسدادِ دہشتگردی کی ایک پالیسی، قومی ایکشن پلان کے اقدامات میں "فرقہ ورانہ عسکریت پسندوں سے سختی سے نمٹنا" اور "کالعدم تنظیموں کے سامنے آنے کی انسداد کو یقینی بنانا" مندرج تھے۔

ایک اسلام آباد اساسی تھنک ٹینک پاکستان ادارہ برائے علومِ امن کی جانب سے شائع کی گئی ایک سالانہ سلامتی رپورٹ کے مطابق، فرقہ ورانہ تشدد میں بطورِ کل کمی واقع ہوئی ہے۔ حکام نے 2018 میں فرقہ ورانہ تشدد کے 12 واقعات – جن میں فرقہ واریت سے متعلقہ 11 کاروائیاں اور ایک مسلح جھڑپ شامل ہیں—ریکارڈ کیے، جو 2017 سے 40 فیصد کم ہیں۔

سپاہِ محمّد پاکستان (ایس پی ایم) کے درجنوں عسکریت پسند سندھ پولیس کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کی 2018 ریڈ بک میں شامل ہیں۔ اس میں مطلوب ترین عسکریت پسند ملزمان کے نام، تصاویر اور تفصیلات شامل ہیں۔

جیسا کہ یہ عسکریت پسند گروہ مخالف سنّی گروہوں سے معرکہ آرا ہونے کی کوشش کرتا ہے، ریڈ بک میں مندرج ارکان سمیت ایس ایم پی کے خلاف کوششیں جاری ہیں۔

اپریل میں سندھ سی ٹی ڈی نے ایس ایس پی کے چھ ملزمان ارکان کو گرفتار کیا، جن پر کراچی میں فرقہ وارانہ قتل میں ملوٍث ہونے کا الزام تھا۔

یہ گرفتاریاں 22 مارچ کو کراچی میں عالمِ دین مفتی تقی عثمانی پر حملے کے بعد سامنے آئیں۔ عثمانی محفوظ رہے لیکن ان کے تین ساتھی جاںبحق ہو گئے۔

سی ٹی ڈی کے عہدیدار راجہ عمر خطاب نے اکتوبر میں ڈان کو بتایا، "گرفتار ملزمان کے منی ٹریل۔۔۔ کا پتا لگایا گیا، اور اس سے پتہ چلا کہ انہیں بیرونِ ملک سے ہدایات اور مالیات جاری کی جاتی ہیں۔"

تہران کی پشت پناہی

پاکستان کی نفاذٍ قانون کی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ خطے میں ایرانی رسوخ میں اضافہ کی ایک کوشش میں SMP کو تہران سے پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

دسمبر 2018 میں پاکستانی حکام نے سعودی حکام کی درخواست پر 2011 میں کراچی میں سعودی سفارتکاروں پر تشدد سے متعلقہ دو مقدمات کا دوبارہ آغاز کیا۔

پاکستانی حکام نے مئی 2011 میں کراچی میں سعودی کاؤنسل خانے کے ایک ملازم حسن القہطانی کے قتل اور اس سے چند روز قبل ایک دستی بم حملے کو ایس ایم پی سے منسلک کیا۔

حکام کے مطابق، اس گروہ کا مقصد قوم کے سنّی اور شعیہ برادریوں اور سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تناؤ پیدا کرنا تھا۔

تہران کی مداخلت سامنے آتی ہے کیوں کہ ایران کے محافظینِ انقلابِ اسلامی کور (IRGC) صدر بشار الاسد حکومت کی حمایت میں شام بھیجے جانے والے پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملشیازینبیون برگیڈ کے لیےپاکستانی شعیہ نوجوانوں – بطورِ خاص زائرین – کو بھرتی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ درجنوں شعیہ نوجوانوں کو اس تنظیم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے تعلق سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔

دنیا بھر میں دہشتگردی اور بد امنی برآمد کرنے کے لیے اس حکومت کی جانب سے استعمال کیے جانے والے غیر قانونی نیٹ ورکس کو بند کرنے کی کاوشوں کے ایک جزُ کے طور پر امریکی محکمہٴ خزانہ نے جنوری میںزینبیون برگیڈ کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان پر کیوں حملہ کیا جا رہا ہے، ایسے معصوم لوگوں کو قتل کرنا کسی بھی طور ایک اچھا مقصد نہیں اور اس کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے

جواب

امریکہ کے قابلِ نفرت بدصورت عیسائی سور دنیا کے اول درجہ کے دہشتگرد ہیں، وہ اپنے ہوشیار سور عیسائی جنگجوؤں کو اسلامی ممالک کو دہشت زدہ کرنے اور بلیک واٹر جیسے عیسائی سرپرستی والے اداروں کی صورت میں مسیحی دہشتگردی پھیلانے کے لیے بھیجتے ہیں۔

جواب