چین کی مدد کے ساتھ، تہران چینی ریفائنریوں کو لاکھوں بیرل تیل فروخت کر کے اور نام بدلے ہوئے بحری جہازوں کے ساتھ، ایرانی پانیوں میں بہت ہی مختصر جہاز سے جہاز کی منتقلی کے ذریعے، بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایران نے مشرقی ایشیا بھر میں، افراد اور اداروں کے ایسے متعدد مراکز اور نیٹ ورک قائم کر رکھے ہیں جو چین کو تیل اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات فراہم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ اپریل میں، ایران اپنے تیل کی 10 لاکھ بیرل یومیہ (بی پی ڈی) تک کی مقدار برآمد کر رہا تھا، جب کہ تیل کی مجموعی پیداوار، پابندیوں سے پہلے کی 3.8 ملین بی پی ڈی کی سطح پر بحال ہو گئی تھی۔
امریکی پابندیوں کے تحت، کمپنیاں کچھ تیل ایران کے جھنڈے والے بحری جہازوں پر پہنچاتی ہیں، جس میں نیشنل ایرانی آئل کمپنی (این آئی او سی) اور نیشنل ایرانی ٹینکر کمپنی (این آئی ٹی سی) شامل ہیں۔
این آئی ٹی سی، سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) سے وابستہ ہے۔
تیل کی فروخت اور پابندیوں سے بچنے کی اپنی کوششوں میں، جنہوں نے اس کی پٹرولیم کی صنعت اور آئی آر جی سی اور اس سے منسلک دیگر کمپنیوں کو نشانہ بنایا ہے، ایران نے دیگر حکمت عملیوں کو بھی استعمال کیا ہے۔
بہت سی خبروں کے مطابق، ان میں دیگر ممالک کے جھنڈوں تلے چلنے والے جہازوں کا استعمال، کھلے پانی میں جہاز سے جہاز کے سامان کی منتقلی اور تیل کی برآمدات کو چھپانے کی کوششیں شامل ہیں۔
دھوکہ دہی کے دوسرے طریقوں میں، جہاز کے خودکار شناختی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا اسے غیر فعال کرنا شامل ہے -- جو کہ تصادم سے بچنے کا ایک نظام ہے جو سمندر میں جہاز کے مقام کو مسلسل نشر کرتا رہتا ہے -- لہذا اس کا راستہ "اندھیرا ہو جاتا ہے"۔
رائٹرز نے خبر دی ہے کہ ٹینکر سے باخبر رہنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کھیپ کی منزل چین ہوتی ہے۔
اس دوران جب کہ یہ فریب کاری پر مبنی جہاز رانی کے طریقوں میں مصروف ہے، اسلامی جمہوریہ نے آبنائے ہرمز میں تیل کے جہازوں کو بحری قزاقی کی کارروائیوں کی دھمکیاں دینا جاری رکھا ہوا ہے۔
تاہم جولائی کے وسط کی ایک خبر کے مطابق، ایران کے مرکزی بینک (سی بی آئی) نے کہا کہ اگرچہ تیل اور دیگر برآمدات سے ایران کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی کی شرح بڑھ رہی ہے۔
سی بی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20 مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال میں، تیل، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات سے ایران کی آمدنی تقریباً 39 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو پچھلے مالی سال کے مقابلے میں، جب تیل کی قیمتیں بہت کم تھیں، 17 بلین ڈالر زیادہ ہے۔
تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 84 فیصد اضافہ، پچھلے مالی سال (20 مارچ 2021 کو ختم ہونے والے) کے مقابلے میں، سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی میں 50 فیصد اضافے، معیشت کے استحکام کے بارے میں بڑھتے ہوئے عوامی خدشات اور مستقبل کے بارے میں خدشات کے دوران ہوا ہے۔
پابندیوں سے بچنا
امریکہ نے 6 جولائی کو تہران پر تیل کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر، ایک درجن سے زائد پیٹرولیم اور پیٹرو کیمیکل پیداوارکنندگان، نقل و حمل کاران اور فرنٹ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔
نامزد شدہ 15 افراد اور اداروں نے، مشرقی ایشیا میں ایرانی پیٹرولیم، پیٹرولیم مصنوعات اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی غیر قانونی فروخت اور ترسیل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے، خلیج میں قائم فرنٹ کمپنیوں کے ایک جال کو استعمال کیا۔
یکم اگست کو اعلان کردہ پابندیوں کے ایک اور جُزو میں، امریکہ نے ایسی چینی اور دیگر فرموں کو بلیک لسٹ کر دیا جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ انہوں نے مشرقی ایشیا کو، ایرانی تیل اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی کروڑوں ڈالر مالیت کی فروخت کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
مجموعی طور پر چھ ادارے -- جن میں سے چار ہانگ کانگ میں، ایک سنگاپور میں اور ایک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ہے -- کو امریکی وزارت خزانہ اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنے الگ الگ بیانات میں نامزد کیا تھا۔
امریکی وزارت خزانہ نے کہا کہ خلیج فارس پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کمرشل کمپنی (پی جی پی آئی سی سی)، جو ایران کے سب سے بڑے پیٹرو کیمیکل بروکرز میں سے ایک ہے، مشرقی ایشیا کو ایرانی پیٹرولیم اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی فروخت میں سہولت فراہم کر رہی تھی۔
اس نے متحدہ عرب امارات میں قائم بلیو کیکٹس ہیوی ایکوئپمنٹ اینڈ مشینری اسپیئر پارٹس ٹریڈنگ ایل ایل سی پر الزام لگایا کہ اس نے لاکھوں ڈالر کی ایرانی پیٹرولیم مصنوعات ہانگ کانگ میں قائم ٹریلینس پیٹرو کیمیکل کمپنی لمیٹڈ کو فروخت کرنے میں مدد کی۔
ٹریلینس پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں تھی۔
امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ سنگاپور میں قائم پائنیر شپ مینجمنٹ پی ٹی ای لمیٹڈ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات لے جانے والے جہاز کا انتظام کر رہی تھی۔
ہانگ کانگ میں قائم گولڈن واریر شپنگ کمپنی لمیٹڈ کو ایرانی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات سے متعلق مبینہ لین دین کے الزام میں بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔
اس فرم کے زیر کنٹرول ایک ٹینکر جہاز، پاناما کے جھنڈے والا گلوری ہارویسٹ، کو بھی بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
ملک کے اندر پکڑ دھکڑ
غیر قانونی تجارت کے ذریعے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کی کوششوں کے علاوہ، ایرانی حکومت ان مظاہرین پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے جو مطالبات کر رہے ہیں اور جنہیں دو وقت کی روٹی کمانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تقریباً ہر روز ہونے والے مظاہروں پر حکومت کے کریک ڈاؤن کے دوران، جنوری سے اب تک، ایران میں متعدد مزدور کارکنوں، اساتذہ، دانشوروں اور فلم سازوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے پھانسیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں ابراہیم رئیسی کے دور صدارت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
حکومت نے ایسی عام خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے، کو بھی تعینات کیا ہے، جو خود کو مکمل طور پر ڈھانپنے سے انکاری ہیں۔
فورسز ان خواتین کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو "قانون کے مطابق مکمل طور پر ڈھکی ہوئی نہیں ہیں" لیکن ان میں سے بہت سی خواتین گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔
سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر، حکومت کی افواج اور ایسے شہریوں کے درمیان جھڑپیں، جو ڈریس کوڈ کو مکمل طور پر ماننے سے انکار کرتے ہیں، بڑھ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے، 15 جون کو، ایران میں اساتذہ اور وسیع تر سول سوسائٹی کے خلاف کیے جانے والے "پرتشدد کریک ڈاؤن" پر خطرے کی گھنٹی بجائی اور مطالبہ کیا کہ ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔