سلامتی

خلیجی کشیدگی میں اضافہ، ایران پر ٹینکر کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا الزام

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایم ٹی مرسر اسٹریٹ پر 29 جولائی کو خلیج امارت فجیرہ کی بندرگاہ کے باہر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں، جس کے بارے میں، امریکہ اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ یہ ایرانی ڈرون حملہ تھا، ایک برطانوی سیکیورٹی گارڈ اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والا عملے کا ایک رکن ہلاک ہو گیا تھا۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

ایم ٹی مرسر اسٹریٹ پر 29 جولائی کو خلیج امارت فجیرہ کی بندرگاہ کے باہر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں، جس کے بارے میں، امریکہ اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ یہ ایرانی ڈرون حملہ تھا، ایک برطانوی سیکیورٹی گارڈ اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والا عملے کا ایک رکن ہلاک ہو گیا تھا۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

امریکہ نے بدھ (4 اگست) کو کہا کہ اسے خلیج عمان میں ایک جہاز کی مبینہ ہائی جیکنگ میں ایران کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ اس نے اس سے پہلے کے ہلاکت خیز حملے، جس کا الزام تہران پر عائد کیا گیا تھا، کا جواب دینے کے لیے برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیا ہے۔

عمان نے کہا کہ اسفالٹ پرنسس، ایک اسفالٹ اور بٹومین ٹینکر، منگل کے روز "بین الاقوامی پانیوں میں ہائی جیکنگ کے واقعہ" میں ملوث تھا اور یہ کہ سلطان نے ہوائی جہاز اور بحری جہاز بھیج دیے ہیں۔

یونائیٹڈ کنڈم میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز (یوکے ایم ٹی او) نے ابتدائی طور پر جہاز پر "غیر قزاقی" کے واقعے کی اطلاع دی تھی مگر بعد میں اس کے بیانیہ کو "ممکنہ ہائی جیک" میں تبدیل کر دیا۔

جہاز رانی کی صنعت کی انٹیلی جنس سائٹ، لائیڈز لسٹ نے اطلاع دی ہے کہ مسلح افراد اسفالٹ پرنسس پر سوار تھے اور اسے ایران جانے کا حکم دیا تھا۔

اسفالٹ پرنسس کا جہاز خلیج عمان میں، فجیرہ بندرگاہ کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ہائی جیکنگ کے واقعے میں ملوث تھا۔ امریکہ نے کہا کہ اسے مبینہ ہائی جیکنگ کے واقعہ میں ایران کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ [یوکے ایم ٹی او/ٹویٹ]

اسفالٹ پرنسس کا جہاز خلیج عمان میں، فجیرہ بندرگاہ کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ہائی جیکنگ کے واقعے میں ملوث تھا۔ امریکہ نے کہا کہ اسے مبینہ ہائی جیکنگ کے واقعہ میں ایران کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ [یوکے ایم ٹی او/ٹویٹ]

امریکہ اور برطانیہ نے کہا کہ یہ مبہم واقعہ ایک دن بعد اختتام پذیر ہوا، اور مبینہ ہائی جیکروں نے پانامہ کے پرچم والے جہاز کو چھوڑ دیا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو کہا کہ "ہمارا خیال ہے کہ یہ افراد ایرانی تھے"۔

پرائس نے کہا کہ " ایران نے علاقے میں پراکسی حملوں اور یقینی طور پر، ان سمندری حملوں کے ساتھ جارحیت کا ایک طریقہ اختیار کر لیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ تازہ ترین واقعہ کی حالات ابھی "سامنے آ رہے ہیں"۔

عمان کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس کی فضائیہ نے اسفالٹ پرنسس کے قریب پروازیں کیں اور اس کی بحریہ نے پانیوں کو محفوظ بنانے کے لیے کئی جہاز بھیج دیے ہیں۔

اس نے کہا کہ جہاز کی "ممکنہ ہائی جیکنگ" متحدہ عرب امارات کی فجیرہ بندرگاہ سے 100 کلومیٹر مشرق میں ہوئی جب یہ آبنائے ہرمز کی طرف بڑھا جو دنیا کے مصروف ترین آبی راستوں میں سے ایک ہے۔

مربوط ردِعمل

دریں اثنا، سمندری سیکیورٹی کے ادارے امبری نے جمعرات کو کہا کہ برطانوی سیکیورٹی گارڈ جو گزشتہ ہفتے عمان کے ساحل پر میرسر اسٹریٹ ٹینکر پر مبینہ ایرانی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، برطانوی فوج کا سابق فوجی تھا۔

29 جولائی کو ایم ٹی مرسر اسٹریٹ، جس کا انتظام لندن کے ممتاز اسرائیلی ارب پتی ایال اوفر سنبھالتے ہیں، پر ہونے والے حملے میں رومانیہ کا ایک کپتان بھی مارا گیا تھا، جب یہ جہاز بحیرہ عرب میں جزیرہ مسیرہ کے قریب سے گزر رہا تھا۔

امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے ایران پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس حملے کا ذمہ دار ہے۔

برطاینہ کے وزیرِاعظم بورس جانسن نے اس حملے کو "ناقابلِ قبول اور اشتعال انگیز" قرار دیا اور ایران کو نتائج کی دھمکی دی۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے بدھ کے روز برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ڈومینک رآب کے ساتھ مرسر اسٹریٹ پر ایران کے حملے کا مربوط جواب دینے کے لیے جاری کوششوں کے بارے میں بات چیت کی۔

سیکیورٹی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہلک حملے نے، ایران اور اسرائیل سے تعلق رکھنے والے جہازوں کے خلاف "خفیہ جنگ" کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گانٹز نے یروشلم میں سفیروں پر زور دیا کہ "ایران کو اس کے اقدامات کا جوابدہ ٹھہرائیں"۔

انہوں نے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے ایک سینئر افسر کا نام لیا جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ٹینکر پر حملے اور دیگر حملوں کا ذمہ دار ہے۔

ینٹز نے کہا کہ "سعید آرا جانی، آئی آر جی سی کی، بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑی (یو اے وی)کمانڈ کا سربراہ ہے۔" یہ وہ شخص ہے جو خلیج عمان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا ذاتی طور پر ذمہ دار ہے۔

اس کشیدگی میں اس وقت سامنے اضافہ ہوا ہے جب ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے جمعرات کو پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھایاجبکہ ایران کو پابندیوں سے متاثرہ معیشت، صحت کے سنگین بحران اور اپنے جوہری پروگرام پر خاردار مذاکرات کا سامنا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500