ایرانی حکومت کی جانب سے اپنے سب سے زیادہ اثرورسوخ کے حامل فوجی کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر سے محروم ہونے کے ایک سال بعد، تہران امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ برس 3 جنوری کو بغداد میں امریکی حملہ، جس میں سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے تھے، کے فوراً بعد، ایرانی قائدین نے خونریز بدلے کا اعلان کیا تھا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر حسن روحانی نے "سنگین بدلے" سے متنبہ کیا تھا۔
تہران کے چوٹی کے دفاعی ادارے، سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل، نے کہا تھا کہ امریکہ کو "درست جگہ اور وقت میں ۔۔۔ شدید انتقام کا سامنا" کرنا پڑے گا۔
آئی آر جی سی کے سابقہ کمانڈر، اور ملک کی مصلحتی بصیرت کونسل کے موجودہ سیکریٹری، محسن رضاعی نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ تہران "امریکہ سے خوفناک انتقام" لے گا۔
اقوامِ متحدہ میں ایرانی سفیر ماجد تخت راوانچی نے کہا تھا، "یقیناً انتقام لیا جائے گا، ایک بھیانک انتقام"۔
ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے بہت آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں اتنی "ہمت" ہی نہیں کہ وہ جنگ چھیڑ سکے۔
میزائل بہت معمولی سے مالی نقصان کا سبب بنے تھے۔
اسی روز، ایرانی حکومت کی جانب سے عراق میں میزائل حملے کرنے کے چند ہی گھنٹے بعد، ایرانی فوج نے یوکرین بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز 752 کو مار گرایا تھا جسے چند روز بعد روحانی نے ایک "تباہ کن غلطی" کہہ کر تسلیم کیا تھا۔
خطے میں افراتفری پیدا کرنا
عراقی مرکز برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ، فرانس کے مقامی غازی فیصل حسین نے کہا، "ایران اور اس کی ملیشیاؤں نے [سلیمانی کے قتل کو] امریکہ اور مغربی مفادات پر اپنے حملوں کے جواز کے تناظر میں استعمال کیا۔"
انہوں نے کہا جبکہ ایران کی فوج، بشمول آئی آر جی سی، براہِ راست امریکہ سے پنگا لینے سے قاصر ہیں، ایران نے خطے میں "افراتفری مچانے والی سرگرمیاں" جاری رکھی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سرگرمیوں میں شامل ہیں "عراق میں اپنی پراکسیز کو بین الاقوامی سفارتی اور فوجی مشنوں پر میزائل حملے کرنے کی ہدایات دینا اور اس کے مسلح گروہوں۔۔۔ جیسے کہ لبنانی حزب اللہ گروپ اور حوثیوں [انصاراللہ] کو لبنان، شام، یمن اور خطے کے باقی ممالک میں مسائل پیدا کرنے کے لیے اعانت فراہم کرنا۔"
حسین نے کہا کہ تہران خطے کو ایک میدانِ جنگ بناتے ہوئے اپنی توسیع پسندانہ حکمتِ عملی کو آگے بڑھا رہا ہے، جس سے وہ سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور استحکام، امن اور ترقی کے لیے امکانات کو تباہ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا، تاہم، ایران کی جانب سے لاحق خطرات اور مسائل "تب زیادہ سنگین اور خطرناک ہوتے اگر سلیمانی کی ہلاکت نہ ہوئی ہوتی۔"
مستقل خطرات
سلیمانی کی موت کے کچھ ہی دیر بعد بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قانی نے آئی آر جی سی کی قدس فورس کی کمان سنبھال لی تھی.
اس نے بڑی حد تک اپنے پیش رو کی جانب سے طے کردہ منصوبوں کو تسلسل سے چلایا ہے، جیسا کہ متوقع تھا، مگر اسے سلیمانی کی طرح کام کرنے میں مشکلات درپیش رہی ہیں۔
سلیمانی کو ایران میں وسیع طور پر خامنہ ای کے بعد طاقتور ترین شخصیت محسوس کیا جاتا تھا۔
عسکری اور تزویراتی تجزیہ کار حاتم الفلاحی نے کہا کہ وہ اس لحاظ سے ایک غیر معمولی شخصیت تھے کہ وہ خامنہ ای کے علاوہ کسی کو جوابدہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں سپریم لیڈر کے ساتھ اپنی قریبی اور بھروسے والے تعلق کی وجہ سے بہت طاقتور کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اور اس اثرورسوخ کو خطے میں تہران کے حامی ایسے ایجنٹوں کا ایک وسیع حلقہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کے قابل تھے جو ان کے احکامات پر عمل کریں۔
اگرچہ قانی کا ملک کے اندر یا باہر سلیمانی والی حیثیت حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے، ایران اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے ساتھ خطے کو دھمکانا جاری رکھے ہوئے ہے۔
سیاسی تجزیہ کار احمد شاوکی نے کہا کہ ایران کا اپنے رویئے کو تبدیل کرنے یا اپنی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا "کوئی ارادہ نہیں ہے"۔
انہوں نے کہا، "آئی آر جی سی اشتعال انگیز حملے کرنے کے لیے ملیشیاؤں کی کفالت جاری رکھے ہوئے ہے اور دنیا کو اعلانیہ سرکشی کا پیغام دینے کے لیے اور یہ توثیق کرنے کے لیے کہ سلیمانی کی غیرموجودگی سے اس کی حکمتِ عملی متاثر نہیں ہوئی ہے، اپنے ساتھ وابستہ لوگوں کو اپنے علاقے سے باہر بدامنی پیدا کرنے کی ہدایات دیتی ہے۔"
حملوں کے لیے بھاری قیمت
شاوکی نے کہا کہ سلیمانی کی موت کے بعد ایک سال میں، تہران نے "اپنے گروہوں کو متحرک ہونے اور اپنی کارروائیاں تشکیل دینے کی ترغیب دیتے ہوئے، اپنے دہشت گردی کے منصوبے کے اہم رہنماؤں میں سے ایک سے محروم ہونے کے صدمے کو سہنے" کی کوشش کی ہے۔
خلیج کے پانیوں میں امریکہ کا ہلّہ بولنا اور اضافی سامان کی تعیناتی، ایران یا اس کے ملیشیا گروہوں کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جارحانہ کارروائی، کے لیے تیاری کے عملی ڈھانچے میں آتی ہے، جس نے 27 نومبر کو تہران کے قریب چوٹی کے ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کے تناظر میں دھمکیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
آئی آر جی سی کے سابقہ رکن، فخری زادہ نائب وزیرِ دفاع، وزارت کی دفاعی اختراعی اور تحقیقی تنظیم کے سربراہ، اور ایران کے جوہری پروگرام کے بانی تھے۔
کسی بھی گروہ یا حکومت نے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی، مگر تہران نے اپنے معمول کے مخالفین: اسرائیل، امریکہ، سعودی عرب اور ایران کی عوامی مجاہدین کی تنظیم پر الزام عائد کیا ہے، جو کہ ایک سیاسی و عسکری تنظیم ہے جو اسلامی جمہوریہ کی قیادت کا تختہ الٹنے اور اپنی نئی حکومت تشکیل دینے کی حامی ہے۔
ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں نے قاسم سلیمانی کی برسی سے قبل عراق اور خطے میں امریکی مفادات پر حملے کرنا بھی جاری رکھا ہوا ہے، جس میں 20 دسمبر کو بغداد میں امریکی سفارت خانے پر راکٹ حملے شامل ہیں۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے کسی بھی مزید غلطی یا اشتعال انگیزی کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس انتباہ کے بعد کہ وہ عراق میں امریکی شہریوں پر کسی بھی جان لیوا حملے کے لیے "ایران کو ذمہ دار ٹھہرائیں" گے.
شاوکی نے کہا کہ اگر ایرانی "کوئی بھی حملہ کرتے ہیں، تو ردِعمل سخت اور شدید ہو گا اور وہ بھاری قیمت ادا کریں گے ۔۔۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی جو خطے میں صورتحال کو خراب کریں اور اسے تشدد اور جنگوں کے چکر میں پھنسا دیں۔"
عراقی عسکری اور تزویراتی ماہر اعلیٰ النشوع نے کہا کہ سلیمانی ہو یا نہ ہو، آئی آر جی سی اور اس کی علاقائی ملیشیاؤں سے خطے کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے کہا، "جبکہ یہ سچ ہے کہ اس شخص نے ولایت الفقیہہ کی حکومت کو بہت خدمات فراہم کیں، ان بہت سے بحرانوں کے لیے ذمہ دار تھا جن سے عراق اور خطے کے ممالک ابھی تک گزر رہے ہیں، اور ایران کی جارحانہ پالیسی تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، [سلیمانی کی] صلاحیتیں اور کردار [دھمکانے کے مقاصد کے لیے] بہت بڑھے ہوئے تھے۔"
ان کا کہنا تھا کہ سلیمانی کی موت کے بعد ایک سال کا ماحول "بہت زیادہ تبدیل ہوا نہیں لگتا، کیونکہ ایرانی اور ان کے اتحادی ناصرف خطے میں، بلکہ دنیا کے تمام حصوں میں بھی، مسائل اور تناؤ پیدا کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔"