جرم و انصاف

ایران میں پھانسیوں میں 'خطرناک اضافہ' رئیسی کے دورِ صدارت سے جڑا ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ہیگ میں ایوان نمائندگان کی عارضی رہائش گاہ کے سامنے، 13 ستمبر کو، ایرانی صدر کے خلاف دو روزہ احتجاج کے دوران، مظاہرین کی جانب سے ابراہیم رئیسی کی تصویر کشی کرنے والے کتبے آویزاں کیے گئے ہیں۔ مظاہرین رئیسی کو ایران میں غربت، جبر اور پھانسیوں کا جزوی طور پر ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ [رابن یوٹریچٹ/اے این پی/اے ایف پی]

ہیگ میں ایوان نمائندگان کی عارضی رہائش گاہ کے سامنے، 13 ستمبر کو، ایرانی صدر کے خلاف دو روزہ احتجاج کے دوران، مظاہرین کی جانب سے ابراہیم رئیسی کی تصویر کشی کرنے والے کتبے آویزاں کیے گئے ہیں۔ مظاہرین رئیسی کو ایران میں غربت، جبر اور پھانسیوں کا جزوی طور پر ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ [رابن یوٹریچٹ/اے این پی/اے ایف پی]

پیرس -- ایران میں 2021 کے دوران پھانسیوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بات دو سرکردہ این جی اوز کی ایک رپورٹ میں، جمعرات (28 اپریل) کو بتائی گئی۔ رپورٹ میں، منشیات کے جرائم میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں اضافے اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی کم از کم 17 خواتین اور ممبران کو پھانسی پر لٹکائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) اور فرانس کی ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی (ای سی پی ایم) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں سابق عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی کے صدارتی انتخاب کے بعد سے ایران میں پھانسیوں کی شرح میں تیزی آئی ہے۔

رئیسی، جسے انسانی حقوق کے کئی عالمی گروپوں کی طرف سے ایک اجتماعی قاتل کہا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر، ایران میں 1988 میں 100 سے زیادہ سیاسی قیدیوں کو اجتماعی پھانسی دینے میں اہم فیصلہ ساز کے طور پر جانا جاتا ہے۔

رپورٹ میں ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پر بات چیت کرنے والی عالمی طاقتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سزائے موت کے استعمال کو، مذاکرات کے مرکزی نکتہ کے طور پر رکھیں۔

2019 میں ایران کی مشہد جیل میں خواتین قیدیوں کا ایک گروپ۔ [IRIB.ir]

2019 میں ایران کی مشہد جیل میں خواتین قیدیوں کا ایک گروپ۔ [IRIB.ir]

چین کے علاوہ، ایران ہر سال کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ، لوگوں کو پھانسیاں دیتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 2021 میں کم از کم 333 افراد کو پھانسی دی گئی، جو کہ 2020 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔ کم از کم 126 پھانسیاں منشیات سے متعلق الزامات کے تحت تھیں، جو 2020 کے 25 کے اعداد و شمار سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔

ایران کی طرف سے، بین الاقوامی دباؤ کے پیش نظر، 2017 میں اپنے انسداد منشیات کے قانون میں ترامیم کو اپنانے کے بعد سے، یہ منشیات سے متعلق پھانسیوں میں آنے والی کمی کے استرداد کی نشاندہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ پھانسیوں کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا، جن میں منشیات سے متعلق تمام جرائم شامل ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں نے کہا کہ رپورٹ میں "پھانسیوں کی تعداد میں اضافے، منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد میں خطرناک حد تک اضافے اور شفافیت کی مسلسل کمی کو آشکار کرتی ہے"۔

'جبر کا آلہ'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں کم از کم 17 خواتین کو سزائے موت دی گئی جبکہ اس کے مقابلے میں 2020 میں نو خواتین کو سزائے موت دی گئی۔ بارہ کو قتل کے الزام اور پانچ کو منشیات سے متعلق الزامات میں سزا سنائی گئی۔

اپنے شوہر یا رشتہ دار کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت پانے والی خواتین کی تعداد پر تشویش بڑھ رہی ہے جن کے بارے میں کارکنوں کا خیال ہے کہ شاید ان بدسلوکی کی جاتی رہی ہو۔

اس میں زہرہ اسماعیلی نامی ایک خاتون کے کیس کا ذکر کیا گیا، جس نے 2017 میں اپنے شوہر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اسے فروری 2021 میں پھانسی دے دی گئی تھی اور ہو سکتا ہے کہ اسے پھانسی دیے جانے سے پہلے دل کا دورہ پڑا ہو جب اس نے اپنے سے پہلے دوسروں کو پھانسی دیے جاتے ہوئے دیکھا ہو۔

ایک اور کیس میں، مریم کریمی کو اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی اور مارچ 2021 میں اسے پھانسی دی گئی تھی، اس کی بیٹی نے ذاتی طور پر تپائی کو لات مار کر اسے پھانسی دی تھی جس کی ایرانی قانون کے تحت اجازت ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2021 میں نسلی اقلیتوں کو پھانسی دینے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، جو کہ پھانسی پر لٹکائے جانے والوں کی غیر متناسب تعداد ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ایسے قیدی جن کا تعلق، بلوچ اقلیت سے ہے، 2021 میں دی جانے والی کل پھانسیوں کا اکیس فیصد تھے اگرچہ وہ ایران کی کل آبادی کا صرف 2 سے 6 فیصد حصہ ہیں۔

اس میں مزید کہا کہ سیکورٹی سے متعلقہ الزامات کے تحت پھانسی پانے والے زیادہ تر قیدیوں کا تعلق عرب، بلوچ اور کرد نسلی اقلیتوں سے تھا۔

ای سی پی ایم کے ڈائریکٹر رافیل چینوئیل-ہزن نے کہا کہ "ہم نسلی اقلیتوں کی سزائے موت کی غیر متناسب تعداد پر پریشان ہیں جس کا اس رپورٹ میں ثبوت موجود ہے۔"

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 12 اپریل کو ایران پر، قیدیوں کو جان بچانے والی طبی دیکھ بھال سے دانستہ طور پر انکار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے 2010 سے لے کر اب تک 96 قیدیوں کے علاج کی کمی کے باعث مرنے کے واقعات کی تصدیق کی ہے۔

ایمنسٹی نے کہا کہ اموات کا ایک بڑا حصہ شمال مغربی جیلوں، جہاں کرد اور آذربائیجانی اقلیتوں کے بہت سے قیدی موجود تھے اور جنوب مشرقی ایران میں ہوا، جہاں قیدیوں کا زیادہ تر تعلق بلوچ اقلیت سے ہے۔

ایمنسٹی کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر، ڈیانا التہاوی نے کہا کہ "انسانی زندگی کے لیے ایرانی حکام کی سرد مہری نے ایران کی جیلوں کو مؤثر طریقے سے بیمار قیدیوں کے لیے موت کے انتظار گاہ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں قابل علاج حالات افسوسناک طور پر جان لیوا ہو جاتے ہیں۔"

آئی ایچ آر اور ای سی پی ایم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک دہائی میں پہلی بار 2021 میں ایران میں کوئی سرعام پھانسی نہیں دی گئی، لیکن خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ کام دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500